سگریٹ، لائٹر اور شخصیت پرستیاں

ایک واقعہ کئی جگہ تحریر ملتا ہیکہ قیام پاکستان کے چند برسوں بعد امور کشمیر کے انچارج مشتاق احمد گورمانی نے (جو گورنر مغربی پاکستان بھی رہے) کوہالہ پل پر جلسہ سے خطاب کے دوران بڑے جذباتی انداز میں جیب سے ایک چھوٹی سی ’’کتاب‘‘ نکالی اور جذبات سے پوری طرح مغلوب آواز میں بولے ’’ہمارے مسائل کی بڑی وجہ اس ’’کتاب‘‘ پر عمل نہ کرنا ہے‘‘ جلسہ کے شرکاء نے ان سے بھی زیادہ جذباتی انداز میں تالیاں بجا کر داد دی۔ واپسی پر گاڑی میں کشمیری رہنما غلام عباس نے وہ چھوٹی سی کتاب دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو گورمانی صاحب نے قہقہہ لگا کر کہا ’’کون سی کتاب جناب یہ تو سگریٹ لائٹر ہے… لیں اور سگریٹ سلگائیں ‘‘۔ 
یہ محض ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ ’’سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا‘‘ والا معاملہ ہے اور ہماری قومی زندگی ایسے ہی واقعاتی گردابوں کے گرد گھومنے اور جھومنے کا نام ہے۔ صاحب اقتدار عوام کو بات چیت کا جب بھی شرف بخشتے ہیں تو زیادہ سنجیدہ لینا مناسب نہیں سمجھتے اور ایک عدد ’’سگریٹ لائٹر‘‘ آگے بڑھا دیتے ہیں۔ 
عوام بھی کسی سے کم نہیں جب آپس میں محو گفتگو ہوتے ہیں تو ’’سگریٹ لائٹروں‘‘ کی بہار چارسو رقصاں نظر آتی ہے۔ نفسیات اور سوشیالوجی کے مطابق انسان دو طرح کی زندگی گزارتا ہے ایک پبلک لائف دوسری پرائیویٹ زندگی۔ لیکن ہم تین طرح کی زندگی گزارنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کئی سچ تو ہم تنہائی میں اپنے آپ سے بھی بولنا پسند نہیں کرتے اور آئینے کے سامنے اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہوئے اکثر ہمارے منہ سے نکل جاتا ہے ’’یہ لیں لائٹر اور سگریٹ سلگائیں‘‘۔ اور پھر ’’مت پوچھ ولولے دل نا کردہ کار کے‘‘ والی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ لپک جھپٹ کر وار پر وار کرتے چلے جاتے ہیں۔ 
 ہمارے معیار بھی دنیا سے الگ تھلگ ہیں، سچی اور کھری بات کرنے والے کو ہمارے ہاں سادہ لوح سمجھا جاتا ہے۔ بات گھما پھرا کر مبالغہ آرائی میں اچھی طرح پھینٹ کر کرنیوالے اور خرید وفروخت کے ماہر کو چالاک اور سب پر بھاری قرار دیا جاتا ہے۔ اکثر عزت دینے کی باتوں کو جلسے جلوسوں یا بیانات تک محدود رکھتے ہیں جبکہ بات بات پر بات سے پھر جانے والے کو مصلحت پسند بڑا لیڈر قرار دے دیتے ہیں۔
ہمارا دوسرا مسئلہ جو مبالغہ آرائی کا بھائی ہے وہ شخصیت پرستی ہے اس لئے دونوں کا ایک ساتھ ذکر ضروری ہے۔ ہم جسے پسند کرنے پر آ جائیں تو بقول غالب ’’جس پر مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں‘‘ والی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے ارد گرد اتنے سگریٹ لائٹروں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں کہ محبوب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے رومانوی شاعر اختر شیرانی بھی ہمارے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ بار بار بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دنیا اور زندگی کو دیکھنے کا ہمارا اپنا نظریہ ہے جس کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ بھی محض اتفاقیہ ہوتا ہے۔ ہم ہروقت اپنی حیثیت اور حرکتیں دیکھے بغیر دشمن کو سبق سکھانے کے لئے ہمہ تن گوش بلکہ تیز طرار خرگوش بنے رہتے ہیں۔ مختلف قسم کے جذباتی جھنڈے اٹھائے خیالی قلعوں پر لہراتے رہتے ہیں اور جب لہراتے لہراتے تھک جاتے ہیں تو پھر سے ایک نئے عزم کے ساتھ لہرانے لگتے ہیں اور بالکل نہیں سوچتے کہ کم تول کر، ادویات اور کھانے پینے کی ضروری اشیا تک میں ملاوٹ کر کے، انصاف کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ کر، ہروقت دروغ گوئی سے کام لے کر اور لوٹ مار کا بازار تو ایک طرف پورا شہر گرم کرکے کہیں جھنڈے نہیں لہرا سکتے البتہ اپنے منہ پراپنے اعمال کی سیاہی ضرور مل سکتے ہیں۔
ہمارے نجات دہندگان کا یہ عالم ہے کہ کسی کی تحریر کی ہوئی تقریر اس کے سامنے خود سے منسوب کر کے پڑھ جاتے ہیں۔ (ایک منتخب رہنما کے واقعہ کا حوالہ الطاف گوہر کی کتاب ’’گوہر گزشت‘‘ میں ملاحظہ کر لیں) 90 روز کے لئے آتے ہیں اور صرف 90 برس اقتدار پر قبضہ جمانے کی ترکیبیں سوچتے رہتے ہیں۔ دیکھیں ذرا مقبولیت کم ہو رہی ہے تو حقائق پر مبنی اقدامات کی بجائے تقریری مقابلے شروع کر دیتے ہیں۔ کسی بھی ہومیو پیتھک اثرات والے بے ضرر قسم کے عالمی فورم پر جاکر وہ جذباتی تقریر کرتے ہیں کہ گویا ’’پھر اس کے بعد قیامت نہ ہوگی‘‘۔ یہاں ہمارے شخصیت پرست عوام حصہ بقدر جثہ نجات دہندہ صاحب کی حمایت میں خم ٹھونک کر اْتر آتے ہیں اور پھر کوئی قسمت کا مارا سوال کر بیٹھے کہ مسائل کب حل ہونگے تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’’آپ نے فلاں تقریر نہیں سْنی اس سے زیادہ بھی کچھ چاہئے؟‘‘ آخر کس قسم کا طلسم ہوشربا ہم نے اپنے اردگرد برپا کر رکھا ہے جس میں شہر ناپْرساں کی طرح ایک کے بعد ایک خون معاف ہے، ہر کوتاہی تسلیم ہے اور دھوکہ عین خدمت ہے اور جسے حقیقت پسندی کے کسی بھی امیر حمزہ یا ان کے بھیجے ہوئے نمائندے سے زوال کا اندیشہ نہیں ہو سکتا۔ پھر وہی بات کہ اس سب کا کیا حل… تو جناب حل موجود ہے، اس کی حقیقت پرمبنی سوچ ہے۔ سگریٹ لائٹروں، مبالغہ آرائیوں اور شخصیت پرستیوں کو چھوڑیں سچ بولنا اور سچ سوچنا شروع کریں۔ کیا ہم نے محسوس نہیں کیا کہ جو ملک ترقی کر رہے ہیں ان کے اکثر شہری ہمارے کلیہ کے مطابق سادہ لوح ہیں۔ ایک دوسرے کو دھوکے بازی کے سگریٹ لائٹر پیش نہیں کرتے، سچ بولتے اور کھرا موقف اپناتے ہیں۔ آگے بڑھنے والی قوموں نے تمام مبالغے دوسری قوموں کے لئے رکھ چھوڑے ہیں اور اپنے ملکی ماحول کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک کر رکھا ہے۔
سچ بولیں، سچ سوچیں پھر آپ کے اردگرد کوئی جھوٹ، کوئی سگریٹ لائٹر نہیں ٹک سکے گا۔ چاہے آپ کا حکمران ہی کیوں نہ ہو۔ آزمائش شرط ہے۔ معاشرے اور ملک کو ان آلائشوں سے آزاد تو کریں ہر شخص اپنے سے شروع کرے اس کے لئے نہ کسی کی منت سماجت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ سچے معاشرے ہلکے پْھلکے، خوشگوار احساس والے ہوتے ہیں سب سے بڑھ کر رہنے کے قابل ہوتے ہیں وہاں کے لوگ ہر وقت لندن، دبئی میں جائیدادیں بنانے اور رفوچکر ہونے کے بعد حکمرانی یا سیروتفریح کیلئے اپنے ملک میں نمودار نہیں ہوتے اور نہ ہی ملک کے اندر سینکڑوں کنال کے گھر بناکر رہا کرتے ہیں۔ جبکہ جھوٹ پر مبنی معاشرے اپنے مبالغوں کا قرض ہی ادا نہیں کر پاتے اور ان کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔
مغربی ادیب فرانز کافکا کی ایک لازوال کہانی کا یا کلپ (Metamorphoses) ہے جس میں مرکزی کردار گریگر سمسا بوجھ اْٹھا اْٹھا کر کیکڑا بن جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے کے برعکس اس کا بوجھ مثبت ہوتا ہے ہمارے تو بوجھ بھی منفی ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بوجھ جو منفی ہیں ہم اقوام عالم میں کیکڑا بننے کو بھی ترس جائیں اور بالکل ہی مٹ کر رہ جائیں کیونکہ بوجھ منفی ہوں تو سزا بھی زیادہ کڑی ہوتی ہے۔ 
اپنے معیار بدلیں، سادہ لوح دنیا نہیں، ہم ہیں۔ یہ سادہ لوحی ترک نہ کی تو داستانوں میں اپنی داستان ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔
بقول فیض:۔
ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی گل رنگ نظر آئی
٭٭٭

ای پیپر دی نیشن