منگل‘19 ربیع الاول 1446ھ ‘ 24 ستمبر 2024ء

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے بعد سیکرٹری خارجہ کا بھی دورہ نیویارک منسوخ۔
اب ان بے چاروں کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی جو بوریا بستر باندھ کر ساری رات  براہ راست لندن اور امریکہ یاترا کے خواب دیکھتے رہے ہوں گے۔ اب یہ خبر سننے کے بعد تو ان کو مبارکباد دینے والے بھی خاموش بت بن چکے ہوں گے۔ اس فیصلے کی وجوہات کیا تھیں‘ عوام کو اس سے کیا لینا دینا‘ وہ کہتے ہیں ناں‘بقول مصطفی زیدی۔
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات سے 
سرکاری طور پر تو یہی کہا گیا ہے کہ بعض دیگر سرکاری مصروفیات کی وجہ سے انکی پاکستان میں موجودگی ضروری ہے۔ جہاں انہوں نے مختلف اجلاسوں میں شرکت کرنا ہے‘ بھلا یہ بھی کیا بہانہ ہے۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ حکومت سادگی اور اخراجات میں بچت کے حوالے سے بیان جاری کر دیتی کہ ان کا دورہ منسوخ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یقین بھی آجاتا، حکومت کی بھی بلے بلے ہو جاتی اور لوگ واہ واہ کرتے۔ اب نائب وزیراعظم اسحاق ڈار جو حکمرانوں کی ناک کا بال ہیں‘ اور ہر دورے میں انکی شرکت لازمی ہوتی ہے‘ اب روسی وزیر خارجہ کے دورے اور شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد کی وجہ سے جو پاکستان میں ہو رہی ہے‘ ان کا ملک میں ہونا ضروری قراردیا گیا  ہے۔ وزیر خارجہ اور  سیکرٹری خارجہ بھی اپنی سرکاری مصروفیات کے سبب امریکہ نہیں جا سکیں گے۔ فی الحال وزیراعظم ہی لندن سے نیویارک جا کر اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہونگے اور خطاب کریں گے۔ بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم کے عشائیے میں شرکت کریں گے اور اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اورکئی سربراہان مملکت  سے ملاقات کریں گے۔دورے سے محروم رہ جانے والے مایوس نہ ہوں، دل چھوٹا نہ کریں‘ ایسے مواقع آئندہ بھی ملتے رہیں گے بس شرط یہ ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکے۔ 
٭…٭…٭
خیبر پی کے اور سندھ کے بعد پنجاب میں بھی گورنر اور وزیراعلیٰ میں ٹھن گئی۔ 
سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس بار یہ کیا ہو رہا ہے۔ سوائے بلوچستان کے جہاں معاملہ ٹھنڈا ہے سب مل جل کر چل رہے ہیں۔پہلے خیبر پی کے پھر سندھ اور اب پنجاب میں تعینات گورنر نے  وزیراعلیٰ کے ساتھ چپقلش پال لی ہے۔ خیبر پی کے میں تو چلیں گورنر اور وزیراعلیٰ سیاسی حریف ہیں‘ دونوں کی نہیں بنتی‘ وہاں کے وزیراعلیٰ نے کھل کر گورنر کی مخالفت اپنائی ہے۔ ویسے ہی سندھ میں بھی ہے جہاں گورنر کی صوبائی حکومت مخالف ہے اور ان دونوں میں اچھے تعلقات موجود نہیں۔ دونوں کے درمیان لفظی گولہ باری جاری رہتی ہے مگر خیبر پی کے والوں کی طرح بات دشمنی تک نہیں جاتی۔ اب پنجاب میں بھی یہی روش اپنائی جا رہی ہے۔ یہاں بھی گورنر پی پی کے ہیں اور وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ن) کی۔ دونوں جماعتیں اتحادی ہیں مگر اب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری پر گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان شدید قسم کا اختلاف سامنے آیا ہے۔ گورنر نے وزیراعلیٰ کی طرف سے بھیجے گئے نام کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس سے سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتحادیوں کے درمیان سب کچھ اچھا ہے کا تاثر درست نہیں۔ یاد رہے ایسی ایسی چھوٹی چنگاریاں بعد میں آگ کا بھڑکتا ہوا الائو بن جاتی ہیں۔ باقی لوگوں کا کیا ہے  بقول فراز۔۔
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
اب باتیں تو ہو رہی ہیں۔ لوگ چسکے لے لے کر طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں اور تبصرے بھی۔ تاہم جب تک صدر مملکت موجود ہیں‘ وہ مفاہمت کی یہ فضا کبھی خراب نہیں ہونے دینگے۔  کیونکہ وہ اگلی بار پر ہر قیمت پر بلاول کو وزیراعظم بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ 
٭…٭…٭
پاکستانی باکسر نے لندن میں مڈل ویٹ باکسنگ چیمپئن شپ جیت لی۔
 امید ہے ان فتو حات کے بعد اب حکومت بھی کرکٹ کے علاوہ دوسرے کھیلوں پر توجہ دے گی جن میں باکسنگ‘ مارشل آرٹ سکواش اور والی بال بھی شامل ہیں۔ اب چند روز پہلے پاکستانی کراٹے سٹار شاہ زیب رند نے امریکہ میں عالمی چیمپئن کا اعزاز حاصل کیا۔ اب گزشتہ روز برطانیہ کے ویمبلے سٹیڈیم میں پاکستانی نژاد باکسر حمزہ نے اپنے مدمقابل کو دوسرے رائونڈ میں ناک آئوٹ کرکے مڈل ویٹ چیمپئن کا اعزاز حاصل کرلیا۔ یہ اعزاز حاصل کرتے ہوئے سارا سٹیڈیم دل دل پاکستان‘ جان جان پاکستان کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ خدا جانے حکمرانوں کی اس طرف توجہ کیوں نہیں جاتی۔ ابھی تک انہیں اولمپکس گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کی ٹہل سیوا سے ہی فرصت نہیں جبکہ پری اولمپکس میں تیسری پوزیشن حاصل کرنیوالے ڈسک تھرو کے ہیرو کے استقبال کیلئے کوئی سرکاری وفد موجود نہیں تھا۔ کیا وہ ہماریہیرو نہیں ہیں۔جبکہ37 سال بعد عالمی جونیئر سکوائش کے فاتح پاکستانی نوجوان حمزہ خان کا تو نام تک شاید کسی کو پتہ نہ ہو‘ جو طویل عرصہ بعد سکوائش میں پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کر رہا ہے۔ والی بال اور ہاکی میں بھی پاکستانی ٹیمیں قدم جما رہی ہیں۔ کیا انکی حوصلہ افزائی کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔ ویسے تو جیسے ہی کوئی پاکستانی عالمی سطح پر مقابلہ جیتتا ہے‘ محکمہ کھیل اسے اپنا بندہ کہہ کر خوب بیان بازی کرتا ہے اور پھر فراموش کر دیتا ہے۔ ارشد ندیم کو جتنی رقم ملی ہے‘ اگر اس سے آدھی بھی باقی عالمی مقابلے جیتنے والے کھلاڑیوں کو مل جائے تو یقین کریں وہ جی جان سے کھیل پر توجہ دینگے۔ مگر انہیں تو مرکز کی بات چھوڑیں‘ ان کے اپنے صوبے کی حکومتیں بھی نہیں پوچھتیں۔ بس بیان کی حد تک اپنے صوبے کا باشندہ کہہ کر لوگوں کے دل خوش کرتی ہیں۔ اگر ہمیں مزید کامیابیاں حاصل کرنا ہیں تو اپنے ان ہیروز پر بھی خرچ کرنا ہوگا۔ 
٭…٭…٭
سموگ کیخلاف مہم تیز ‘ موسم بدلتے ہی بیماریاں پھیلنے لگیں۔ 
دیسی مہینوں کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ بھادوں کے بعد اسوج کا مہینہ آتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ راتیں خوشگوار ہونے لگتی ہیں‘ حبس کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ اب خدا جانے یہ ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے یا ہماری ناقص حکمت عملی کہ ملک میں پانی اور سبزے کی جگہ کم ہوگئی ہے۔ گاڑیوں‘ کارخانوں‘ بھٹوں اور فصلوں کی باقیات اور کچرا جلانے سے اٹھنے والا دھواں اور گرد و غبار فضا میں سموگ بن کر ہر طرف چھایا رہتا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ اب راتوں کو بھی کھلا صاف آسمان نظر نہیں آتا۔ ٹمٹماتے ستارے اور کھویا کھویا چاند بھی اس سموگ کی وجہ سے اوجھل ہو جا تا ہے۔ اسکے تدارک کیلئے حکومت پنجاب سموگ کے خلاف جو مہم چلا رہی ہے‘ وہ قابل تعریف ہے۔ مگر اسکے ساتھ ساتھ عوام کو بھی  اس حوالے سے  بیدار کرنا ضروری ہے جو ابھی تک ہر وہ کام کرتے پھرتے ہیں جس سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور ماحولیاتی نظام جو اس سموگ کی وجہ سے خراب ہو  رہا ہے‘ انسانوں میں کینسر جیسی موذی بیماری پیھلانے کا سبب بن رہا ہے۔  مہم جاری ہے‘ فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی ہے مگر یہ جو بھارتی پنجاب سے دھواں آتا ہے‘ اسے کون روک سکتا ہے۔ وہاں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ہمارے ہاں تو پھر بھی چاہے عمل ہو یا نہ ہو‘ سڑکوں پر کچرا جلانا منع ہے تاہم ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جو آلودگی پھیلتی ہے‘ وہ عام ہے۔ یہی حال فیکٹریوں کا بھی ہے اور کارخانوں کا بھی جو زہریلا دھواں اگلتے رہتے ہیں۔ ان سب کو قانون کے دائرہ میں لا کر ہی سموگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن