سیر ت النبی ؐاورمظلوم کی داد رسی(۱)

Sep 24, 2024

خواجہ نورالزماں اویسی

جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت کے تحت کسی کو حاکم بنایا اور کسی کو محکوم ، کوئی باد شاہ ہے اور کوئی فقیر، کسی کو آقا بنایا اور کسی کو غلام۔ بعض اوقات انسان بہت ساری جدو جہد اور محنت کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر پاتا اورزندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا ہے وہ اس کی وجہ سے غرور تکبر میں مبتلا نہ ہو اور نہ ہی کسی کو اپنے سے حقیر سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر۔ لہذا جن کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت عطا کیا ہے وہ ضرورت مندوں کو ایسے ہی دیں جیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’پس آپ یتیم پر سختی نہ کریں اور سائل کو نہ جھڑکیں ( سورۃ الضحی )۔ سورۃ القصص میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے اور زمین میں فساد کے طالب نہ بنو ‘‘۔ 
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ ہم مظلوم کی داد رسی کریں اور ضرورت مند کی مدد کریں۔ ترمذی شریف کی روایت ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کے دنیا کے دکھوں میں سے کوئی دکھ دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دکھوں میں اس کے دکھ دور کرے گا۔ جو دنیا میں کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جو کسی مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کو اس کی حاجت کو پورا کرے گا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرائض کے بعد سب سے محبوب عمل کسی مسلمان کے دل کو خوش کرنا ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ) 
حضور نبی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی مظلوم فریاد لے کر آتا تو آپ ؐ خوداس کے ساتھ چل کر اس کی مدد فرماتے۔ ایک مرتبہ ایک تاجر مکہ مکرمہ میں سامان بیچنے آیا تو ابو جہل نے اس سے سامان خریدا اور قم دینے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنے قبیلے واپس گیا اور انہیں مدد کرنے کو کہا لیکن وہ تعداد میں کم تھے اس لیے وہ قریش کے مقابلے میں نہ نکلے۔ وہ تاجر دوبارہ مکہ مکرمہ آیا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ کو ابو جہل کی اس بات کا علم ہوا تو آپ ؐ ابو جہل کے گھر تشریف لے گئے اور ابو جہل کو اس کی قیمت ادا کرنے کو کہا تو ابو جہل نے اس کی قیمت ادا کی۔(ضیا النبی )۔

مزیدخبریں