وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جلسوں کی بجائے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتشاری سیاست مسترد کر کے عوام نے معاشی پالیسیوں میں بہتری کو ترجیح دی ہے۔گالی، گولی، انتشار اور فساد سے معیشت بہتر ہوگی نہ معاشرت۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جلسے 2028ء میں کریں گے، ابھی عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے محنت کرنے کا وقت ہے، معاشی بحالی، سیاسی استحکام سے جڑی ہے، سیاسی انتشار کا مطلب عوام کو ریلیف دینے کے عمل کو متاثر کرنا ہے۔ عوام نے سیاسی استحکام میں کردار ادا کر کے معاشی ترقی کی حمایت کی ہے، سیاسی استحکام کے لیے قوم کا اتحاد پاکستان کے روشن معاشی مستقبل اور مہنگائی سے نجات کی ضمانت ثابت ہو گا۔ معاشی چیلنجز، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پوری قوم، سیاسی جماعتوں، اداروں اور صوبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ سیاسی افراتفری میں قوم اور ملک کا بہت وقت ضائع ہو چکا ہے۔ مزید وقت ضائع کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ وفاق تمام صوبوں کے ساتھ مل کر عوامی مسائل کے حل، مہنگائی میں کمی، مساوی ترقی کے لیے بھرپور ساتھ دینے کی پالیسی پر کاربند رہے گا، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں واپس آئی ہے، معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ، روپے کا مستحکم ہونا، ترسیلات زر میں اضافہ، شرح سود کا کم ہونا، یہ سب معاشی ترقی کے واضح ثبوت ہیں۔ ہم سب کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا آخری پروگرام ہو اور یہی اصل کامیابی ہو گی۔
دوسری جانب، حکومت نے منی بجٹ لانے کا اشارہ دیدیا ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے اہداف پورے کرنے ہیں۔ منی بجٹ لایا جا سکتا ہے۔ منی بجٹ لانا ہماری خواہش نہیں، اہداف پورے نہ ہوئے تو منی بجٹ آ سکتا ہے۔ علی پرویز ملک نے کہا کہ آئی ایم ایف کا فریم ورک لے کر چلنا ہے۔ کیا ہم ملک کو دیوالیہ ہونے دیں؟ مالیاتی ادارے ہمارے لیے دروازے کھول رہے ہیں۔ وزیر مملکت کے بیان کے علاوہ یہ خبر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت کی جانب سے کچھ ادویات پر 18 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لگانے کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔جی ایس ٹی جلد اور طاقت کی ادویات، ملٹی وٹامنز، کیلشیم، ملک پاوڈر، شوگر سٹرپس اور ہربل ادویات پر لگایا گیا ہے۔ حکومتی اقدام کی وجہ سے شوگر جیسے امراض میں مبتلا، بوڑھے اور کمزور افراد اور بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کی طرف سے جاری بیان میں جو کچھ کہا گیا ہے وزیر مملکت کا بیان اس سے مختلف صورتحال پیش کررہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہر حکومت اعداد و شمار کی حد تک جس معاشی ترقی اور بہتری کے دعوے کررہی ہوتی ہے، عوامی حلقوں میں وہ ترقی اور بہتری کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بار بھی یہی سب ہورہا ہے اور حکومت کے دعوؤں کے برعکس عام آدمی کے لیے یوٹیلیٹی بلز ادا کرنا اور دو وقت کی روٹی کھانا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔ اپریل 2022ء میں پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہٹا کر معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عوام کے مسائل حل کریں گے لیکن سولہ مہینے کے دوران مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے سربراہ بھی شہباز شریف تھے اور اس وقت بھی وہی وزیراعظم ہیں لیکن صورتحال میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ فی الحال تو حکومت کی جانب سے وعدے، دعوے اور عزم کا ہی اعادہ کیا جا رہا ہے، عملی طور پر اب تک کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہر کوئی اپنی من مانی کرتے ہوئے اشیاء کے نرخ بڑھا رہا ہے، کہیں چیک اینڈ بیلنس نظر نہیں آ رہا۔ بے روزگاری انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کا بھرپور اختیار رکھتی ہیں۔ بہتر ہے ارادے اور عزم کے بجائے عوامی مسائل عملی طور پر حل کیے جائیں۔ عوام پہلے ہی بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور وزیر مملکت منی بجٹ آنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ منی بجٹ لا کر اہداف پورے کیے جائیں، اگر حکومت واقعی عوامی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے تو اپنے شاہی اخراجات میں کمی لا کر اور اشرافیہ طبقات کی مراعات ختم کر کے عوامی مشکلات میں کمی کر سکتی ہے۔ زبانی جمع خرچ سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔
اس سلسلے میں کرنے کا سب سے اہم کام یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے جو بے تحاشا مراعات و سہولیات دی جارہی ہیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جو بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کیا وہ واقعی ایسی مراعات و سہولیات دے کر معاشی حوالے سے استحکام حاصل کرسکتا ہے؟ کوئی بھی حکومت اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے چنیدہ نمائندے ہی مل کر حکومت بناتے ہیں اور اسے چلانے کے لیے وہ بیوروکریسی کو نوازتے رہتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہم بیرونی امداد کے بغیر چلنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ حکومتی ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانات کے ذریعے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔