انبیاء و رسل ؑاور ہر دور کے مصلحین کی انقلابی پکار پر ہمیشہ سب سے زیادہ توجہ نوجوانوں نے ہی دی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں قومی تحریکیں ہوں یا سیاسی انقلابات اس قوت کی کارفرمائی ہر جگہ نمایاں ہے۔ بعض مقامات پر تو فکری و عملی رہنمائی کا کام بھی نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے۔ نوجوانوں میں بعض اوقات ہم عمرآئیڈیل پرستی کی وباء کے باوجودمیں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی قوم پر ایک احسان ہیں۔ مولانا مودودیؒ شیخ احمد یاسینؒ، اور امام خمینیؒ وہ شخصیات ہیں جو اس عام اصول کے برعکس اپنی عمر کے نسبتاً دور کہولت میں نوجوانوں کے آئیڈیل اور امام بنے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں کے دل سید مودودی کی فکر سے روشن اور ان کے دیئے ہوئے جذبہ سے زندہ ہیں۔ مولانا محترم کی شخصیت کا کمال ہے۔ جب وہ نوجوان تھے تو انہوں نے اپنے وقت کے بزرگ رہنماؤں کو متاثر کیا اور ان سے خراج عقیدت وصول کیا۔ اپنے عہد میںبزرگوں کے اتنے وسیع مجمع میں اکیس برس کا ایک نوجوان نمایاں ہو گیا کہ امت مسلمہ کو پیغام زندگی عطا کرنے والے علامہ اقبال کی نگاہ بھی یہیں آ کر ٹھہری۔ مولانا محمد علی جوہر ؒ نے بھی اس نوجوان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ جمعیت علمائے ہند کے عالی مرتبت رہنماؤں نے بھی اس نوجوان کی فکر اور تحریروں پریوں اعتماد کیا کہ اپنے نمائندہ پرچے کے لیے اسے مدیر مقرر کیا۔ علامہ اقبال ؒکی دعا کے مطابق یہ جوان پیروں کا استاد بن گیا۔ نوجوان ابوالاعلیٰ نے نوجوانوں سے بڑھ کر بزرگوں کو متاثر کیا اور پھر معمر ابوالاعلیٰ نے بزرگوں سے بڑھ کر نوجوانوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ جدید تعلیم اور جدید ذہن رکھنے والے نوجوانوں نے ایک دینی پیشوا کو مرکز عقیدت کیسے بنا لیا۔ اس سوال کے جواب میں ہی سید مودودی کی عظمت پنہاں ہے۔
یوں تو مولانا محترم کے اخلاق و کردار کے کئی پہلو نمایاں ہیں،تاہم مولانا مودودی کی اہم خصوصیت جس نے نوجوان نسل کو متاثر کیا وہ ان کے انقلابی نظریات اور قول و عمل کی ہم آہنگی ہے۔ اسلام دین عمل ہے اور حیات انسانی کا مقصد اچھے اعمال کی آزمائش ہے۔ مولانا مودودی کی اسی صفت نے نوجوانوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا کہ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ انہوں نے جو کہا اس پر خود بھی عمل کیا۔آپ نے اتحاد و اتفاق کی تشریح ہی نہیں کی اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ کو عملی شکل دی۔ مولانا مرحوم کی سیرت کا یہی پہلو ان کی امتیازی صفت ہے کہ چلیپائی یا مصری شاعری کے اس بند کی طرح جسے اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کی طرف پڑھیں اور دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں پڑھیں اس کا لہجہ اور اس کے معنی ہر حال میں ایک ہی رہیں گے۔ اپنی شعوری زندگی سے انہوں نے اپنے لیے جس راستے کا انتخاب کیا، موت کی آخری ہچکی تک وہ اس پر قائم رہے۔ مختلف ادوار کے حکمران آئے جنہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لحاظ سے اقدامات کیے۔ ان کے ایسے تمام اقدامات کے خلاف جو قرآن و سنت اور طریق صحابہ ؓکے خلاف تھے تنہا مولانا مودودی کی آواز بلند ہوتی رہی۔ مولانا مودودی نے جھکنے کی بجائے جھکانے کو اپنا طرز زندگی قرار دیا۔گویا کہ
کچھ لوگ تھے کہ وقت کے سانچوں میں ڈھل گئے
کچھ لوگ تھے کہ وقت کے سانچے بد ل گئے
مولانا محترم اسلام کی یوں علامت بنے کہ مغرب و مشرق سے اٹھنے والی اسلامی تحریکوں نے انہیں اپنا قائد تسلیم کیا۔ ان کی فکری رہنمائی کو اپنے لیے ایک نعمت خیال کیا۔ مولانا کی تیسری صفت یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے جرأت مندانہ اور پر اعتماد طرز عمل اختیار کیا۔ نوجوانوں کو اعتماد عطا کیا کہ اسلام ہی دنیا کی متحرک اور فعال قوت ہے۔ جو زمانے کی رہنمائی کر سکتاہے۔ اس اعتماد نے دنیا کے ہر نظام کے مقابلے میں مسلمان نوجوانوں کو ڈٹ جانے کا جذبہ بخشا۔ مغربی تعلیم کے اثرات کی بدولت ایک بڑا طبقہ اسلام کو جامد، رجعت پسندانہ اور محض عبادات کا دین سمجھتا تھا۔ مولانا محترم نے اسے دین عمل اور نظام حیات کے طور پر اتنے منطق کے ساتھ پیش کیاکہ اب دنیا بھر سے اسلام کو بحیثیت نظام زندگی اپنانے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
مولانا مودودی اپنے عہد کے مجتہد تھے ان کی بصیرت اور محققانہ نظر نے عالم اسلام کو قرآن و حدیث کے براہ راست مطالعہ اور معتقدین کے تحقیقی کام کی مدد سے دور حاضر کے مسائل کا حل پیش کیا۔ اس سلسلہ میں بہترین مثال ان کی عظیم تفسیر قرآن ’’تفہیم القرآن‘‘ہے جس نے پڑھے لکھے افراد کے لیے قرآن فہمی سہل کر دی۔ مولانا نے شکست دینے کے بجائے جیت لینے کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیا۔ لوگ ان کے سامنے ان کے مخالفین کی تقریریں، الزامات اور بہتانات دوہراتے رہے لیکن مولانا کا سب کے جواب میں ایک ہی انداز تھا ’’میں نے اپنا مقدمہ خدا کی عدالت میں درج کروایا ہے۔ میں کسی گالی کا جواب گالی سے نہیں دے سکتا۔ میرا اپنا طریق کار اور ان کا اپنا طرز عمل ہے۔ وہ قیامت کے دن اپنے رویے کے خود جوابدہ ہوں گے۔‘‘
یہ وہ جواب تھے جو سید محترم گالیوں اور بہتانات کے سلسلہ میں وقتاً فوقتاً دیتے رہے۔ مولانا نے اپنے افکار کو متحرک افراد کی صورت میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کے ارد گرد ایسے جانبازوں کا ایک گروہ جمع ہو گیا جنہوں نے دنیوی مفادات، اپنے روشن مستقبل، اپنے تابناک ماضی، اپنے معاشی فوائد، اپنے کنبے اور برادری غرض کہ سب کچھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اس تحریک پر تج دیا۔ قیادت کا ایک نیا تصور اور پارٹی میں شمولیت کا ایک نیا معیار قائم کیا۔ دنیوی لحاظ سے کچھ نہ حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھنے والا یہ گروہ سید مودودی ؒ کی تحریروں کی چمک سے روشن ہے۔