گراؤنڈ تھا، ریالٹی نہیں تھی

پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے مسائل کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اتنے زیادہ مسائل شاید ہی کسی اور ملک کے حصے میں آئے ہوں۔ ذرا بھی آسان نہیں کہ تمام مسائل کا احاطہ کوئی کر سکے اور اب تو خیر سے سیکورٹی مسائل کی گنتی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ سرحدوں پر خطرہ ہے، بلوچستان میں خطرہ ہے، کے پی میں خطرہ ہے۔ را کے اور دوسری ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اور ایجنٹ اکیلے نہیں، ان کے سہولت کار بھی ہیں۔ 

کئی مسائل ورثے میں ملے۔ پھر انہوں نے انڈے بچے دینے شروع کر دئیے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل وڈیروں نے پر پرزے نکالے۔ وڈیروں کا اتحاد گدّی نشینوں سے رہا ہے۔ ہر گدّی نشین وڈیرہ بھی ہوتا ہے البتہ ہر وڈیرہ گدّی نشین نہیں ہوتا۔ بہرحال ہر علاقے میں ان کا اتحاد ہوتا ہے اور اتحاد کا مقصد ایک ہی ہے۔ کسی کو بولنے، اٹھنے، جینے کا موقع نہیں دینا۔ پھر ملک بنتے ہی، راتوں رات نو دولتیوں کا گروہ وجود میں آیا۔ پھر فوجی مداخلتیں ہوئیں۔ ان کے نتیجے میں ایسے سیاستدانوں کی کھیپ پیدا ہوئی جو موقع ملنے پر ہٹلر بن گئے۔ پھر اقتصادی اشرافیہ نے لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع کیا جو استحصال کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ کر کہیں کا کہیں نکل گیا۔ ایک حالیہ معاملے کو دیکھ لیجئے۔ ایسی آئی پی پیز وجود میں لائی گئیں جو بجلی کا ایک یونٹ بھی تیار نہیں کرتیں لیکن سالانہ پچاس ارب روپے حکومت سے وصول کر رہی ہیں۔ فوجی آمریتوں کی کوکھ سے معیشت کیلئے غیر ممالک پر انحصار شروع ہوا جو بڑھتا ہی گیا۔ مسائل کے گرداب ، جھکڑ اور جھکولے، کھائیاں اور کھڈے، زخم اور ناسور کوئی کتنا ہی داستان اذیت کو لکھے، پوری بات نہیں لکھ سکتا۔ 
پروفیسر طاہر کامران عالمی شہرت کے حامل  پاکستانی مورخ ہیں اور پاکستان کے مسائل اور واقعات کا جتنی گہرائی سے انہوں نے مطالعہ کیا ہے، اس کی مثال کم ہی مل سکتی ہے۔ بہرحال لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اقبال احمد اور حمزہ علوی کے بعد انہی کا نام اْبھر کے آیا ہے۔ وہ قدرتی بات ہے، مطالعہ پاکستان پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں تو اقبالیات کے بھی ماہر ہوں گے لہٰذا وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اقبال چیئر پر بھی فائز رہے۔ 
ان کی تازہ کتاب Chequered past, Uncertain Futureآئی ہے۔ نام ڈرا دینے والا ہے لیکن اس میں ملکی مسائل اور صورتحال اور درپیش خطرات کا جہاں پریشان کرنے والا احاطہ ہے، وہاں امید افزا حل بھی پیش کئے گئے ہیں۔ کتاب کا زیادہ زور غیر ملکی وسائل پر پاکستان کے معاشی انحصار پر ہے لیکن اس میں آمریتوں کے پیدا کردہ مسائل اور ان کے غیر دور اندیشانہ فیصلوں کے تباہ کن نتائج کا بھی جذباتی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں امکان دکھایا گیا ہے کہ پاکستان مستحکم جمہوری نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ زبان اردو کا جو کردار  پاکستان کے سماجی اتحاد میں ہے، اس کا بھی مثبت ذکر ہے لیکن دلائل اور حوالوں کے ساتھ۔ مصنف کا انداز تحریر لیکچر کا ہے، مباحثے کا نہیں چنانچہ جو فریق ان کی سوچ سے اتفاق نہ کرے، اس کی دلآزاری نہ ہو۔ 
نصف صدی کے گزشتہ دور میں پیپلز پارٹی پاکستانی سیاست کا اہم ترین فیکٹر رہی ہے۔ ضیاء الحق مرحوم نے اس ’’فیکٹر‘‘ کی کس طرح تشکیلِ نو کی، اس کے اثرات کادائرہ کم کیا اور کس طرح اسے مصیبت میں ڈالا، یہ باب سیاسی ہلچل پر مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کیلئے خاص طور سے دلچسپ ہو گا۔ تاریخ کے اس مطالعے کا دائرہ عمران خان کے دور حکومت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ باب بھی غور سے پڑھنے والا ہے۔ کتاب لندن سے چھپی ہے۔ 
____
کتاب کا تذکرہ ختم ہوا، عمران کا باقی ہے۔ 21 تاریخ کو لاہور کی کاہنہ گرائونڈ میں پی ٹی آئی کا جلسہ تھا جس کا غل کئی دن سے غپاڑے کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ رات دس بجے ایک دوست تشریف لائے۔ پوچھا کہاں سے آ رہے ہو، فرمایا، کاہنہ گرائونڈ گیا تھا، گرائونڈ ریالٹی کا مشاہدہ کرنے کیلئے۔ پوچھا تو پھر کیا دیکھا۔ فرمایا، گرائونڈ تو موجود تھی، ریالٹی نہیں تھی۔ ارے یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ریالٹی تھی ہی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میں نے سوال کیا۔ بولے نہیں تھی تو ضرور لیکن وہی کم کم باد و باراں والی کیفیت تھی۔ چھدری چھدری ریالٹی کچھ ایسی بکھری بکھری نظر آئی کہ ریالٹی کے رئیل ہونے پر ڈائوٹ ہو گیا۔ میں نے کہا بھئی، اردو میں بات کرو، یہ فرنگی کی زبان ہمیں نہیں آتی۔ بولے سٹیج پر مجھے تو سارے دیسی فرنگی ہی نظر آئے۔ پوچھا، گنڈاپور نامی احمد شاہ ابدالی نے لاہور فتح کرنا تھا، وہ کر لیا۔ کہا، کر تو لینا تھا لیکن گرائونڈ میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ احمد شاہ ابدالی ثانی کو اندھیرے سے ڈر لگا، گرائونڈ میں آیا ہی نہیں، دور سے سلام کیا اور واپس لوٹ گیا۔ ان کا آنا کچھ ایسا تھا کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب آئے۔ اور جانا کچھ ایسا تھا کہ کسی کو اس کا بھی پتہ نہیں چلا کہ کب گئے۔ پوچھا لشکر جو ہمراہ آیا، اس کا کیا بنا، ہم نے سنا تھا تیس ہزار کی فوج کے ہمراہ آ رہے تھے۔ بولے 30 کا صفر نکال دو، باقی جو ہندسہ بچتا ہے، اس میں سے ڈیڑھ نفی کر دو، بس اتنے ہی آئے تھے اور ان میں سے بھی بہت سوں کی جیب کٹ گئی، بہت پریشان تھے۔ پوچھا جیب کاٹنے وال کہاں سے آن ٹپکے۔ بولے ٹپکے نہیں، شریک لشکر تھے، بس کچھ ایسا ہی ماجرا ہے، مان لو، پی ٹی آئی نے ’’کلچرل انقلاب‘‘ پیدا کر دیا ہے۔ 
____
اسرائیل ٹائمز کے بعد یروشلم پوسٹ نے بھی خان صاحب کو اپنا ’’ہم خیال‘‘ اور اسرائیل کا دوست قرار دے دیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ پاک فوج اسرائیل کی مخالف ہے، خان صاحب فوج کی یہ مزاحمت ختم کریں۔
یعنی فوج میں ’’نقب‘‘ لگانے کی کوشش کریں۔ کوشش تو انہوں نے کی تھی، الٹی پڑ گئی اور پاک فوج پہلے سے بھی زیادہ متحد ہو گئی۔ 
اسرائیل ٹائمز اور یروشلم پوسٹ والے اپنے ’’ڈایا سپورا‘‘ کو اپنے ہاں کیوں نہیں بلوا لیتے؟

ای پیپر دی نیشن