مرضی کا ممبر ککز کمیٹی میں شامل کرنا غیر جموری رویہ میں شو، منصورکا خط 

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی اجلاس میں شرکت کئے بغیر چلے گئے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ججز کمیٹی کا اجلاس جسٹس منصور علی شاہ کی عدم شرکت کے باعث نہ ہو پایا جو ملتوی کر دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس کے ایجنڈے میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر کرنی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سیکرٹری سپریم کورٹ کمیٹی کو خط لکھ دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے کہا ہے کہ آرڈیننس اجراء کے چند ہی گھنٹوں بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کر دی گئی۔ ترمیمی آرڈیننس آنے کے بعد بھی سینئر ترین ججز کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی۔ کوئی وجہ بتائے بغیر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹانے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں۔ اپنی مرضی کا ممبر کمیٹی میں شامل کر کے من مرضی کی گئی۔ اپنی مرضی کا ممبر کمیٹی میں شامل کرنا غیر جمہوری رویہ اور ون مین شو ہے۔ چیف جسٹس کی ذات میں انتظامی معاملات کا ارتکاز غیر جمہوری اور عدالتی شفافیت کے اصول کے برعکس ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی میں واپسی کی تین شرائط رکھ دیں۔ جب تک فل کورٹ اس آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔ جب تک فل کورٹ آرڈیننس کے ذریعے ترایم پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرتی، جب تک چیف جسٹس کمیٹی بحال کر کے جسٹس منیب اختر کو شامل نہیں کرتے کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔ صدارتی آرڈیننس پر فل کورٹ بنچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق فیصلہ دیا۔ فل کورٹ نے فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کی مداخلت بند کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی ترمیم کے ذریعے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو عدالت اس سے نمٹے گی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی تشکیل کا فیصلہ فل کورٹ کا تھا اس میں ردوبدل یا تو فل کورٹ بنچ یا فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ممکن ہے۔ کمیٹی کی اصل حالت میں بحالی تک شرکت نہیں کروں گا۔ موجودہ ترمیمی آرڈیننس کی جوڈیشل تشریح بھی ضروری ہے۔ جسٹس منیب اختر 11 مارچ سے ججز کمیٹی کی میٹنگ میں شریک رہے۔ جسٹس منیب اختر بھی میٹنگ میں شرکت کے لئے تیار تھے۔ یہ نہیں بتایا کہ سیکنڈ سینئر ترین جج کی موجودگی میں پانچویں نمبر پر جج کو کمیٹی کا حصہ کیوں بنایا گیا؟۔ ایسے عمل کے خاتمے کے لئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے منظور کیا تھا۔ اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر سے کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کمیٹی کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ میں رد و بدل یا تو فل کورٹ بنچ یا فل کورٹ اجلاس کے ذریعے ہی ممکن ہے، یا پھر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں دوبارہ شامل کیا جائے۔ میںکمیٹی کے سربراہ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں سابق کمیٹی کی بحالی تک  شرکت نہیں کر سکتا ہوں۔ انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء ترمیمی آرڈیننس2024ء  جلد بازی میں لایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023ء  سپریم کورٹ میں ون مین شو ہی روکنے کے لئے لایا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن