بات شروع ہوئی تھی وزےراعظم گےلانی کے وفد کے دو رہ افغانستان سے اور کابل مےں صدر کرزئی کے وفود سے دونوں ملکوں مےں مفاہمت بڑھانے اور علاقے کے مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے سے۔ اس دورے کی سب سے بڑی کامےابی پاک افغانستان مشترکہ کمےشن کا قےام ہے جو شدت پسندوں سے افغان حکومت کی مصالحانہ کوششوں کی حماےت اور تائےد کرے گا۔ جوں جوں افغانستان سے امرےکی فوجےوںکے انخلا کی تارےخ نظر آنے لگی ہے، طالبان سے مصالحت کی پس پردہ کوششوں مےں تےزی آ گئی ہے۔ پاک افغان مشترکہ کمےشن کے قےام کو اوباما انتظامےہ بڑی حےرت اور تشوش سے دےکھ رہی ہے۔ امرےکی انتظامےہ جو ابھی تک اپنی مقصد براری کےلئے پاکستان اور افغانستان مےں اختلاف کے بےج بوتی رہی حےران ہے کہ اتنا بڑا واقعہ کس کے کہنے پر امرےکی اطلاع اور اجازت کے بغےر وقوع پذےر ہو گےا۔ پاک افغان سفارت کاروں کا خےال ہے کہ خطے مےں اتنی بڑی تبدےلی خود امرےکی حکمت عملی کے نتےجہ کے طور پر آ رہی ہے۔ صدر کارزئی اور امرےکی انتظامےہ کے تعلقات مےں اےک عرصہ سے بد اعتمادی کی فضا قائم تھی اس کی بڑی وجہ غالباً ےہ تھی کہ امرےکی انتظامےہ نے اگلے انتخابات مےں صدر کارزئی کی بجائے ان کے بھائی قےوم کارزئی کو کامےاب کرنے کی پےشکش کی تھی۔ ےہ بات صدر کارزئی کو بُری لگی ہو گی۔ دوسرے افغانستان مےں غےر ملکی فوجےوں کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا افغان صدر پر بہت پرےشر تھا اور وہ وقتاً فوقتاً امرےکےوں پر کھلی تنقےد کرتے رہتے تھے۔ پاک امرےکی تعلقات مےں بگاڑ کی چند اےک دےگر وجوہات تھےں : اےک عرصہ سے آئی اےس آئی اور سی آئی اے مےں بد اعتمادی پےدا ہونے لگی تھی۔ C.I.A نے ISI کے ساتھ انٹےلی جنس شےئرنگ بھی ختم کر دی تھی۔ بلکہ ISIکے ڈائریکٹر جنرل جب C.I.Aکے ڈائریکٹر سے ملنے امرےکہ گئے تو بعض لوگوں نے ےہاں تک کہہ دےا کہ C.I.A کو اب جنگ لڑنے مےں ISI کی ضرورت نہےں ہے اس نے اپنا نظام قائم کر لےا ہے۔ رےمنڈ ڈےوس کے واقعہ نے جلتی پر تےل کا کام کےا۔ ISI نے سوچنا شروع کےا کہ خدا جانے ملک کو طول و عرض مےں کتنے اور رےمنڈ ڈےوس موجود ہےں۔ کےا کےا کرتے پھرتے ہےں جن پر کوئی روک ٹوک نہےں۔ اس کے اوپر امرےکی (special forces) کے کچھ لوگ جو بظاہر پاک فوج کو تربےت دےنے کےلئے آئے تھے ان کی دلچسپےاں ہمارے اےٹمی اثاثوں کی سمت نظر آنے لگےں۔ پاک عسکری قےادت نے مطالبہ شروع کےا کہ سپےشل فورسز کے انخلا کا فوری انتظام کےا جائے اور ہمےں بتاےا جائے کہ C.I.A کے کتنے آپرےٹرز ملک مےں موجود ہےں اور ان کی کےا ذمہ دارےاں ہےں؟ امرےکہ کو اےک اور ایشو پر بہت تحفظات تھے اور وہ تھا شمالی وزےرستان مےں امرےکےوں کی مدد کی خاطر امرےکی دشمنوں کے خلاف (جن سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہےں) اےک بڑا حملہ کرنے مےں ہچکچاہٹ۔ پاک فوج اس حملہ کو اسی شکل مےں کرنے کو تےار تھی جب اےسا کرنا خود ہمارے قومی مفاد مےں ہو۔ امرےکہ کی اس خواہش کو کہ ”پاک فوج اس جنگ کو امرےکی نگاہ سے دےکھے، امرےکی ذہن سے سوچے اور امرےکی توانائی سے اس مےں شرکت کرے“ ہماری فوج صاد نہ کر سکی۔ لہٰذا اختلاف بڑھتے چلے گئے۔ نتےجہ ےہ نکلا کہ امرےکہ کے تعلقات افغانستان سے خراب، پاکستان سے کشےدہ، جنگ ان کے علاقہ مےں لڑنا چاہئے تو ممکن کےسے ہو۔ اب امرےکی جرنےلوں کی فوج ظفر موج damage control کرنے کو پاکستان کے دورے کر رہے ہےں۔ لےکن تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے ہےں وہ جلد ہی ٹھےک نہ ہو پائےں گے۔ لہٰذا ہم پاکستانےوں کو سمجھ لےنا چاہےے کہ امرےکہ پاکستان کو خےرباد کہہ کے بھارت کی طرف ہاتھ بڑھانے کی سوچ رہا ہے۔ اس سے ہمےں کےا سبق سےکھنا چاہئے کےا نہےں، ہماری حکومت اور سےاستدانوں کا کام ہے۔ پاک امرےکہ تعلقات رےمنڈ ڈےوس کے واقعہ سے سرد مہری کا شکار تھے بعد کے واقعات نے مزےد بگاڑ پےدا کےا۔ ISIکے جنرل پاشا کا دورہ امرےکہ بھی بہت کامےاب نہےں رہا۔ C.I.A کے ڈائریکٹر نے پاکستان تحفظات پر کوئی امےد افزا بات نہےں کی۔ ادھر امرےکی پالےسی سے افغانستان مےں تو افغان آبادی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ افغانستان پر تو جنگ مسلط کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے خود کو مسلح کر لےا تھا لےکن پاکستان پر predator ڈرون حملوں کا اختےار امرےکہ کو خود اپنی طاقت اور اناکے علاوہ اور کہےں سے نہےں ملتا۔ ےہ حملے ہماری علاقائی خود مختاری اور بےن الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہےں۔ وزےراعظم کے دورے سے افغانستان کے خدشات کم کرنے مےں مدد ملے گی کہ پاکستان افغانستان کو اپنی strategic depth سمجھتا ہے۔ ےہ تاثر دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اس ملاقات سے علاقائی پالےسی وضع کرنے کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔ دونوں ملکوں مےں تعلقات بہتر کرنے کا اےک نےا احساس بےدار ہوتا دکھائی دےنے لگا ہے۔ ادھر زرداری کے دورہ ترکی کے دوران ترکی مےں طالبان کو اےک دفتر کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس کا خےر مقدم کرنا چاہئے۔ افغانستان مےں جہاں پاکستان مخالف لوگ بھی بڑی تعداد مےں موجود ہےں۔ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والوںکی تعداد مےں بھی کمی نہےں اور اب ےہ احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بغےر گزارہ ممکن نہےں۔ امرےکی فوج کے سب سے بڑے جرنےل اےڈمرل مائےک مولن ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہےں۔ ان کے ابھی تک کے بےانات سے فرسٹرےشن اور جھنجھلاہٹ صاف نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ صدر اوباما کی طرف سے افغانستان سے امرےکی فوجوں کے انخلا کی تارےخ جوں جوں نزدےک آتی جاتی ہے امرےکہ کو نظر آنے لگا ہے کہ امرےکی فوج کو دس سال کی پےہم مہم جوئی کے باوجود افغانستان مےںفتح ےا کامےابی نام کی کوئی چےز امرےکی عوام کو دکھانے کے لئے نہےں ہے۔ اگلا سال امرےکہ مےں انتخابی سال ہو گا۔ جس کی اہمےت سب لوگوں پر عےاں ہے۔ اسی وجہ سے مائک مولن اور جنرل پےٹریاس دونوں امرےکی افواج کی ناکامی کے لئے ISIکو ذمہ دار ٹھہراتے ہےں۔ ان کی سوچ ےہ ہے کہ ےہ حقانی نےٹ ورک کے لوگ ہےں جو پاک افغان سرحد کی پناہ گاہوں مےں روپوش رہتے ہوئے بھی امرےکی فوجےوں پر حملے کر کے انہےں ہلاک کرتے ہےں اور ےہ کون نہےں جانتاکہ امرےکہ کی نگاہ مےں اےک امرےکی فوجی کا خون اےک افغان ےا اےک پاکستانی سے کتنا مقدم ہے۔ امرےکہ کے پاس طاقت ہے، تکنےک ہے، توانائی ہے۔ اگر وہ ان سب کے باوجود پاک افغان سرحدوں پر چھپے اپنے ان دشمنوں کا راستہ نہےں روک سکتا تو پاکستان جےسے ترقی پذےر ملک سے ےہ تقاضہ کرنا کہ وہ امرےکہ کے لئے اےسا کر سکتا ہے معقول رائے نہےں کہی جا سکتی۔اےڈمرل مولن سے ےہ گزارش بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح امرےکی جانوں کی حفاظت جنرل مولن کا ”مقدس فرےضہ“ ہے اسی طرح پاکستانی جانوں کا تحفظ جنرل اشفاق پروےز کےانی کا بھی مقدس فرےضہ ہے اور جنرل کےانی اپنی ذمہ دارےاں نبھانا بھی جانتے ہےں۔
پاک افغان تعلقات .... ہوا کا تازہ جھونکا
Apr 25, 2011
بات شروع ہوئی تھی وزےراعظم گےلانی کے وفد کے دو رہ افغانستان سے اور کابل مےں صدر کرزئی کے وفود سے دونوں ملکوں مےں مفاہمت بڑھانے اور علاقے کے مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے سے۔ اس دورے کی سب سے بڑی کامےابی پاک افغانستان مشترکہ کمےشن کا قےام ہے جو شدت پسندوں سے افغان حکومت کی مصالحانہ کوششوں کی حماےت اور تائےد کرے گا۔ جوں جوں افغانستان سے امرےکی فوجےوںکے انخلا کی تارےخ نظر آنے لگی ہے، طالبان سے مصالحت کی پس پردہ کوششوں مےں تےزی آ گئی ہے۔ پاک افغان مشترکہ کمےشن کے قےام کو اوباما انتظامےہ بڑی حےرت اور تشوش سے دےکھ رہی ہے۔ امرےکی انتظامےہ جو ابھی تک اپنی مقصد براری کےلئے پاکستان اور افغانستان مےں اختلاف کے بےج بوتی رہی حےران ہے کہ اتنا بڑا واقعہ کس کے کہنے پر امرےکی اطلاع اور اجازت کے بغےر وقوع پذےر ہو گےا۔ پاک افغان سفارت کاروں کا خےال ہے کہ خطے مےں اتنی بڑی تبدےلی خود امرےکی حکمت عملی کے نتےجہ کے طور پر آ رہی ہے۔ صدر کارزئی اور امرےکی انتظامےہ کے تعلقات مےں اےک عرصہ سے بد اعتمادی کی فضا قائم تھی اس کی بڑی وجہ غالباً ےہ تھی کہ امرےکی انتظامےہ نے اگلے انتخابات مےں صدر کارزئی کی بجائے ان کے بھائی قےوم کارزئی کو کامےاب کرنے کی پےشکش کی تھی۔ ےہ بات صدر کارزئی کو بُری لگی ہو گی۔ دوسرے افغانستان مےں غےر ملکی فوجےوں کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا افغان صدر پر بہت پرےشر تھا اور وہ وقتاً فوقتاً امرےکےوں پر کھلی تنقےد کرتے رہتے تھے۔ پاک امرےکی تعلقات مےں بگاڑ کی چند اےک دےگر وجوہات تھےں : اےک عرصہ سے آئی اےس آئی اور سی آئی اے مےں بد اعتمادی پےدا ہونے لگی تھی۔ C.I.A نے ISI کے ساتھ انٹےلی جنس شےئرنگ بھی ختم کر دی تھی۔ بلکہ ISIکے ڈائریکٹر جنرل جب C.I.Aکے ڈائریکٹر سے ملنے امرےکہ گئے تو بعض لوگوں نے ےہاں تک کہہ دےا کہ C.I.A کو اب جنگ لڑنے مےں ISI کی ضرورت نہےں ہے اس نے اپنا نظام قائم کر لےا ہے۔ رےمنڈ ڈےوس کے واقعہ نے جلتی پر تےل کا کام کےا۔ ISI نے سوچنا شروع کےا کہ خدا جانے ملک کو طول و عرض مےں کتنے اور رےمنڈ ڈےوس موجود ہےں۔ کےا کےا کرتے پھرتے ہےں جن پر کوئی روک ٹوک نہےں۔ اس کے اوپر امرےکی (special forces) کے کچھ لوگ جو بظاہر پاک فوج کو تربےت دےنے کےلئے آئے تھے ان کی دلچسپےاں ہمارے اےٹمی اثاثوں کی سمت نظر آنے لگےں۔ پاک عسکری قےادت نے مطالبہ شروع کےا کہ سپےشل فورسز کے انخلا کا فوری انتظام کےا جائے اور ہمےں بتاےا جائے کہ C.I.A کے کتنے آپرےٹرز ملک مےں موجود ہےں اور ان کی کےا ذمہ دارےاں ہےں؟ امرےکہ کو اےک اور ایشو پر بہت تحفظات تھے اور وہ تھا شمالی وزےرستان مےں امرےکےوں کی مدد کی خاطر امرےکی دشمنوں کے خلاف (جن سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہےں) اےک بڑا حملہ کرنے مےں ہچکچاہٹ۔ پاک فوج اس حملہ کو اسی شکل مےں کرنے کو تےار تھی جب اےسا کرنا خود ہمارے قومی مفاد مےں ہو۔ امرےکہ کی اس خواہش کو کہ ”پاک فوج اس جنگ کو امرےکی نگاہ سے دےکھے، امرےکی ذہن سے سوچے اور امرےکی توانائی سے اس مےں شرکت کرے“ ہماری فوج صاد نہ کر سکی۔ لہٰذا اختلاف بڑھتے چلے گئے۔ نتےجہ ےہ نکلا کہ امرےکہ کے تعلقات افغانستان سے خراب، پاکستان سے کشےدہ، جنگ ان کے علاقہ مےں لڑنا چاہئے تو ممکن کےسے ہو۔ اب امرےکی جرنےلوں کی فوج ظفر موج damage control کرنے کو پاکستان کے دورے کر رہے ہےں۔ لےکن تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے ہےں وہ جلد ہی ٹھےک نہ ہو پائےں گے۔ لہٰذا ہم پاکستانےوں کو سمجھ لےنا چاہےے کہ امرےکہ پاکستان کو خےرباد کہہ کے بھارت کی طرف ہاتھ بڑھانے کی سوچ رہا ہے۔ اس سے ہمےں کےا سبق سےکھنا چاہئے کےا نہےں، ہماری حکومت اور سےاستدانوں کا کام ہے۔ پاک امرےکہ تعلقات رےمنڈ ڈےوس کے واقعہ سے سرد مہری کا شکار تھے بعد کے واقعات نے مزےد بگاڑ پےدا کےا۔ ISIکے جنرل پاشا کا دورہ امرےکہ بھی بہت کامےاب نہےں رہا۔ C.I.A کے ڈائریکٹر نے پاکستان تحفظات پر کوئی امےد افزا بات نہےں کی۔ ادھر امرےکی پالےسی سے افغانستان مےں تو افغان آبادی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ افغانستان پر تو جنگ مسلط کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے خود کو مسلح کر لےا تھا لےکن پاکستان پر predator ڈرون حملوں کا اختےار امرےکہ کو خود اپنی طاقت اور اناکے علاوہ اور کہےں سے نہےں ملتا۔ ےہ حملے ہماری علاقائی خود مختاری اور بےن الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہےں۔ وزےراعظم کے دورے سے افغانستان کے خدشات کم کرنے مےں مدد ملے گی کہ پاکستان افغانستان کو اپنی strategic depth سمجھتا ہے۔ ےہ تاثر دور کرنا بہت ضروری ہے۔ اس ملاقات سے علاقائی پالےسی وضع کرنے کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔ دونوں ملکوں مےں تعلقات بہتر کرنے کا اےک نےا احساس بےدار ہوتا دکھائی دےنے لگا ہے۔ ادھر زرداری کے دورہ ترکی کے دوران ترکی مےں طالبان کو اےک دفتر کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس کا خےر مقدم کرنا چاہئے۔ افغانستان مےں جہاں پاکستان مخالف لوگ بھی بڑی تعداد مےں موجود ہےں۔ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والوںکی تعداد مےں بھی کمی نہےں اور اب ےہ احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے بغےر گزارہ ممکن نہےں۔ امرےکی فوج کے سب سے بڑے جرنےل اےڈمرل مائےک مولن ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہےں۔ ان کے ابھی تک کے بےانات سے فرسٹرےشن اور جھنجھلاہٹ صاف نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ صدر اوباما کی طرف سے افغانستان سے امرےکی فوجوں کے انخلا کی تارےخ جوں جوں نزدےک آتی جاتی ہے امرےکہ کو نظر آنے لگا ہے کہ امرےکی فوج کو دس سال کی پےہم مہم جوئی کے باوجود افغانستان مےںفتح ےا کامےابی نام کی کوئی چےز امرےکی عوام کو دکھانے کے لئے نہےں ہے۔ اگلا سال امرےکہ مےں انتخابی سال ہو گا۔ جس کی اہمےت سب لوگوں پر عےاں ہے۔ اسی وجہ سے مائک مولن اور جنرل پےٹریاس دونوں امرےکی افواج کی ناکامی کے لئے ISIکو ذمہ دار ٹھہراتے ہےں۔ ان کی سوچ ےہ ہے کہ ےہ حقانی نےٹ ورک کے لوگ ہےں جو پاک افغان سرحد کی پناہ گاہوں مےں روپوش رہتے ہوئے بھی امرےکی فوجےوں پر حملے کر کے انہےں ہلاک کرتے ہےں اور ےہ کون نہےں جانتاکہ امرےکہ کی نگاہ مےں اےک امرےکی فوجی کا خون اےک افغان ےا اےک پاکستانی سے کتنا مقدم ہے۔ امرےکہ کے پاس طاقت ہے، تکنےک ہے، توانائی ہے۔ اگر وہ ان سب کے باوجود پاک افغان سرحدوں پر چھپے اپنے ان دشمنوں کا راستہ نہےں روک سکتا تو پاکستان جےسے ترقی پذےر ملک سے ےہ تقاضہ کرنا کہ وہ امرےکہ کے لئے اےسا کر سکتا ہے معقول رائے نہےں کہی جا سکتی۔اےڈمرل مولن سے ےہ گزارش بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح امرےکی جانوں کی حفاظت جنرل مولن کا ”مقدس فرےضہ“ ہے اسی طرح پاکستانی جانوں کا تحفظ جنرل اشفاق پروےز کےانی کا بھی مقدس فرےضہ ہے اور جنرل کےانی اپنی ذمہ دارےاں نبھانا بھی جانتے ہےں۔