ایک بادشاہ ایسا تھا کہ جو عظیم فاتح اور لائق جرنیل تھا‘ بہادر جنگ جو تھا‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان سے علم و ادب کے لئے پھول جھڑا کرتے تھے۔ اس کے جاہ و جلال اور تلوار کی گونج دور دور تک سنائی دی تھی اس کی ہمت و شجاعت کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ اس نے کہا تھا ”کلام الملوک ملوک الکلام“ یعنی بادشاہوں کی زبان ‘ زبانوں کی بادشاہ ہوتی ہے“ .... آج کل کے بادشاہ تو کئی زبانیں رکھتے ہیں مگر ایسی شخصیات موجود ہیں کہ جن کے جاہ و جلال کا ڈنکا بجتا ہے اور جن کے الفاظ کی تلوار کی گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے.... عظیم فاتح اور لائق جرنیل تو شہنشاہ بابر تھا‘ جسے ہندوستان کے لوگ بدصورت دکھائی دیتے تھے‘ ان کے لباس اور طرز معاشرت پر بھی اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ انہیں قدرتی دلکشی اور قدرت کے نظاروں سے قطعاً دلچسپی نہ تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ صوفی منش بابر نے ہی اپنے عہد میں ہندوستان کو تاریخ عالم میں متعارف کروایا تھا۔ یوں بابر کا ہونا ہندوستان کی تاریخ میں ایک انقلاب کی صورت یادرگار ہے اور کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے ایسے مسلم فاتحین اور لائق فائق جرنیلوں کی تاریخ کا ورثہ رکھنے والے لوگ بھارت سے بجلی مستعار لیں گے اور اسی لئے مجید نظامی نے حضرت علامہ اقبالؒ کے یوم وفات پر منعقدہ الحمرا کی تقریب میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے کہا .... ”ہم بھارت کی بجلی پر لعنت بھیجتے ہیں“ اور ”ہم آزادی کی حفاظت کر کے دکھائیں گے“ .... اور یہی وہ زبان ہے کہ جسے تمام زبانوں کی بادشاہ بنانے کی ضرورت ہے اور بجلی کے معاملے میں ہم خودکفیل کیوں نہ ہو سکے ؟ وہ اس لئے کہ پچاس کی دہائی میں جب امریکہ ایٹم برائے امن کے عنوان سے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو ایٹمی توانائی کی پرامن راہیں تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے تو حکومت پاکستان منیر احمد خان کو سرکاری طور پر امریکہ بھیجتی ہے .... مگر وہ غیر ملکی خاتون سے شادی کر لیتے ہیں اور واپس نہیں آتے اور جب بھٹو سے متعارف کروایا جاتا ہے تو پاکستان اٹامک انرجی کا چیئرمین بن کر ایٹمی بجلی گھر ”کانوپ“ کی طرف رخ موڑتے ہیں اور ڈاکٹر عثمانی کو سائیڈ پر لگا کر خود افتتاح کرتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ نہ تو کوئی ایٹمی توانائی یا ایٹمی پاور پلانٹ پالیسی تیار ہوئی اور نہ ہی پاکستانی سائنسدانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ 95 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ کا ڈپلی کیٹ تیار کر سکیں حتیٰ کہ وزیراعظم کی منظوری کے بعد بھی منیر احمد خان نے پلانٹ کی ڈپلیکیٹ کو نہ بننے دیا اور بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ 1974ءمیں ”پاک نور“ کے نام سے 40 میگا واٹ کینیڈین طرز کے این آر ایکس ری ایکٹر کی کاپی تیار کرنے کی تجویز کو رد کر دیا گیا اور1976ءمیں چشمہ کے مقام پر 600 میگا واٹ کے ایک پاور پلانٹ کی منظوری دی گئی مگر چیئرمین صاحب نے یہ منصوبہ بندی بھی رکوا دی۔ ظاہر ہے کہ بیگمات وہاں سے لائیں گے تو آقا پرستی بھی انہی کی ہو گی۔اندازہ لگا لیں کہ 50 کی دہائی سے امریکہ ہمارے بجلی کے معاملات پر کتنی گہری نظر رکھے ہوئے تھا اور آج جو بجلی کا بحران ہے اس میں منیر احمد خان جیسے امریکہ کے حکم کی بجا آوری کرنے والے لوگ بھی شامل تھے اور انہی معاملات کی روشنی میں دیکھیں تو کالا باغ ڈیم کیسے بن سکتا ہے .... اور اسی لئے آج کے اس دور میں مجید نظامی جیسے لیڈر کی ضرورت ہے‘ جو کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف مذموم مقاصد رکھنے والوں کے ہاتھ توڑ دینے چاہئیں۔ پوری قوم مجید نظامی سے اتفاق کرتی ہے کہ ہم بھارت کی بجلی پر لعنت بھیجتے ہیں۔