” نوائے وقت“ اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر، جناب جاوید صدیق کی رپورٹ یا تجزیے کے مطابق، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف کو مُشکلات سے نکالنے کے لئے، نگران حکومت، فوج اور بعض دوسرے اداروں نے ایک آسان حل تلاش کر لِیا ہے اور وہ یہ کہ جنرل(ر) مشرّف سُپریم کورٹ کی اجازت سے اپنی والدہ کی عیادت کے لئے مُلک سے باہر تشریف لے جائیں اور اُس کے بعد میمو کیس میں ملّوث جناب حسین حقانی کی طرح سیکورٹی خدشات کے پیشِ نظر وطن واپس نہ آئیں“۔ رپورٹ میں سابق صدر کے وکیل ابراہیم ستّی کی سُپریم کورٹ سے درخواست کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جناب ستّی نے سُپریم کورٹ میں کہا کہ ”میرے موکل اپنی بیمار والدہ کی تیمارداری کے لئے مُلک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو سُپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا کہ اگر آپ کے موکل اپنی والدہ کی تیمارداری کے لئے مُلک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو وہ سُپریم کورٹ میں درخواست دیں“۔عین ممکن ہے کہ جاوید صدیق صاحب کا تجزیہ یا اندر کی خبر درست ہو کیونکہ جناب پرویز مشرّف کی وطن واپسی کے بعد اُن کے ساتھ جو کُچھ ہُوا اور آئندہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ، اُن کی توقع کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان میں اُن کے مدّاح تو، اپنے قائد کی واپسی کو ”ٹارزن کی واپسی“ قرار دے کر بھنگڑے اور لُڈّیاں ڈال رہے تھے اور خود، آل پاکستا ن مسلم لیگ کے صدر کا بھی، یہی خیال تھا کہ جب اُن کا طیارہ کراچی ائر پورٹ پر اُترے گا تو عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی، اُچھلتی ہوئی موجیں اُن کو سلامی دیں گی لیکن انہیں خبر نہیں تھی کہ قدرت کا پنجہ اور قانون کا شکنجہ اُنہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ ججز نظر بندی کیس، اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو قتل کیس، لال مسجد آپریشن کیس اور سب سے بڑا آئین توڑنے پر ”غداری کا مقدمہ“۔ اگر کسی بھی ایک مقدمے میں جرم ثابت ہو جائے تو، کم از کم سزائے موت! اپنی آمد کے بعد، کچھ دنوں تو سابق صدر نے ،جارحانہ روّیہ اختیار کیا تھا لیکن اب اُن کے لہجے اور رویئے میں اعتدال اور مایوسی کی جھلک دِکھائی دینے لگی ہے۔ جناب پرویز مشرّف کے سینئر وکیل اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر، صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری اور سیکرٹری جنرل، ڈاکٹرامجد بھی اپنی تمام تر، سیاسی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، بے بس نظر آرہے ہیں اور اُن کی باڈی لینگوئج سے تھکاوٹ ظاہر ہو رہی ہے۔ 10اپریل 1986ءکو، اپنی جلا وطنی ختم کر کے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور ائر پورٹ پر اُتری تھیں تو اُن کی آمد ایک غیر اعلانیہ N.R.O کا نتیجہ تھی۔ ذُوالفقار علی بھٹو کی رحم کی اپیل مسترد کر کے، اُنہیں پھانسی پر چڑھائے جانے کا بندوبست کر نے والے، جنرل ضیاءالحق ”ریفرنڈم کے ذریعے منتخب صدر پاکستان“ تھے۔ سات سمندر پار وائٹ ہاﺅس کے مکین نے اُنہیں، پیغام بھجوا دیا تھا کہ ”دُخترِ مشرق“ کو کُچھ نہ کہا جائے اور آزادانہ طور پر سیاست کرنے دی جائے“۔ پھر صدر جنرل ضیاءالحق کو، منظر سے ہٹا دیا گیا اور بھٹو کی بیٹی کو دوبار وزیرِ اعظم بنوا کر برطرف کروانے کا سامان بھی کِیاگیا لیکن جناب پرویز مشرّف تو اکتوبر 1999ءسے ستمبر 2008ءتک صدارت ”ہنڈھا“ کر بیرونِ مُلک جا چُکے تھے ۔ پھِر ”چھُٹتی نہیں ہے، مُنہ سے یہ کافر لگی ہُوئی“ کے فارمولے کے تحت واپس آنا اُنہیں مہنگا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی مُلک سے عدم موجودگی میں بھی اُن کی، پیپلز پارٹی زندہ وسلامت تھی جو، اپنی لیڈر کی آمد کے بعد مزید متحرک اور فعال ہوگئی تھی لیکن جناب پرویز مشرّف نے اپنی سرپرستی میں، جو مسلم لیگ ق بنوائی تھی، اُس کے کرتا دھرتا تو صدرِ زرداری کے ساتھ اقتدار میں شریک ہو چُکے تھے۔ اِسی لئے موصوف کو، اکتوبر 2010ءمیں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اپنی صدارت میں، ایک نئی مسلم لیگ آل پاکستان مسلم لیگ بنانا پڑی۔ اِس مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کے لئے 184 اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے 296 امیدوار انتخابی میدان میں اُتارے ہیں لیکن جناب پرویز مشرّف کے قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے کاغذات ِنامزدگی مسترد کئے جا چُکے ہیں اور وہ فی الحال اپنے گھر میں قیدی ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دو روز قبل خبر آئی تھی کہ”آل پاکستان مسلم لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے جنابِ پرویز مشرّف کو مشورہ دِیا ہے کہ بیگم صہبا مشرّف کو جماعت کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں“ لیکن ابھی تک اِس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔ ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بیگم صہبا مشرّف وہ کردار ادا نہیں کر سکتیں جو ذُوالفقار علی بھٹو کے جیل جانے اور پھِر پھانسی پر چڑھائے جانے کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اور 1975ءمیں حیدر آباد سازش کیس میں، خان عبدالولی خان کی عدم موجودگی میں بیگم نسیم ولی خان نے عام جلسوں میں اپنی پرجوش تقریروں اور جلوسوں کی قیادت کرتے ہوئے کِیا تھا۔ جنرل پرویز مشرّف کے وطن واپس آنے پر ممکن ہے کہ اُن کے بعض بیرونی دوستوں نے اُن سے کھُل کھیلنے کی اجازت دِلوانے کا وعدہ کِیا ہو لیکن حالات سازگار نہیں ہے۔ صدر زرداری اور اُن کی پیپلز پارٹی پرویز مشرّف کے بارے میں غیر جانبدار ہے حتیٰ کہ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں جناب پرویز مشرّف کو ملّوث کئے جانے کے عمل سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نگران حکومت نے تو علی الاعلان اپنی غیر جانبداری اور سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے میں عدم دلچسپی کا اظہار کر دیا ہے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرّف ”گزیدہ پارٹی“ (میاں نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ ن) نے بھی شاید معاملہ خُدا اور حالات کے سپرد کر دیا ہے لیکن پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور آزاد سُپریم کورٹ اور میڈیا، وُکلاءاور سِول سوسائٹی کے لوگ، سابق صدر کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کئے ہُوئے ہیں۔ فوج نے اپنے سابق سربراہ کے لئے کُچھ کرنا ہوتا تو اب تک کُچھ نہ کچھ تو ضرور ہو چکا ہوتا۔ شاید اِسی لئے جناب ابراہیم ستّی نے اپنے موکل کی والدہ سے تیمارداری کے لئے وطن سے واپس جانے کی زبانی درخواست کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ والدہ محترمہ سپیشل ہوائی جہاز سے پاکستان کیوں نہ تشریف لے آئیں! پرویز مشرّف خوش قسمت ہیں کہ وہ جمہوری دور میںہیں۔ بادشاہوں کے دَور میں ملزم ٹھہرائے جاتے تو نہ جانے اُن سے کیا سلوک کیا جاتا؟ 1402ءمیں امِیر تیمور نے انقرہ پر حملہ کر کے تُرک سلطان بایزید یلدرم کو شکست دے کر اُسے قید کر لیا تھا اور ایک سال تک (جب تک سلطان یلدرم 1403ءمیں انتقال نہ کر گیا) امیر تیمور ایک بہت بڑی گھوڑا گاڑی پر بنائے گئے بہت بڑے پنجر ے میں شاہی لباس میں ملبوس سلطان با یزید یلدرم کو اُس کے درباریوں سمیت اپنے ساتھ ساتھ لئے پھِرتا رہا۔ آج جناب پرویز مشرّف کو اپنی صفائی پیش کرنے کی مکمل آزادی ہے اور اگر قسمت ساتھ دے، تو وہ اپنی والدہ محترمہ کی عیادت کے لئے وطن سے واپس جانے کی بھی۔ اُس کے بعد کون اُن کا پیچھا کرے گا ؟ شاید اُن کے وُکلاءبھی نہیں!