اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے + نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + بی بی سی) لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سابق صدر پرویز مشرف کی عبوری ضمانت عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دی ہے۔ مقدمے کے سرکاری وکیل نے کہا ہے ملزم پرویز مشرف کو اس مقدمے میں گرفتار کرنے اور ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کا فیصلہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔ جسٹس عبدالسمیع خان کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے پرویز مشرف کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست کی سماعت شروع کی تو ملزم کی جانب سے کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا تاہم کچھ دیر کے بعد ایک خاتون وکیل عدالت میں پیش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ وہ اس درخواست کی پیروی کرنا چاہتی ہیں۔ عدالت نے جب ان سے وکالت نامہ دکھانے کو کہا تو اس ضمن میں وہ عدالت میں کوئی وکالت نامہ پیش نہ کر سکیں۔ مقدمے کے سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار کا کہنا تھا کہ دنیا کی عدالتی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک اشتہاری ملزم کو ضمانت قبل از گرفتاری دی گئی ہو۔ ملزم پرویز مشرف کی گرفتاری کے لئے انٹرپول تک سے رابطہ کیا گیا تھا۔ بےنظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم پرویز مشرف کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انہیں حراست میں لینے کا فیصلہ اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی ٹیم کے سربراہ کریں گے۔ اس ضمن میں ایف آئی اے میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ سرکاری وکیل کے مطابق اس مقدمے کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ خالد قریشی نے ان دنوں عارضی طور پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا چارج سنبھالا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو اس مقدمے میں حراست میں لینے اور ان سے پوچھ گچھ کے لئے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درخواست دائر کی جائے گی جس کے بعد ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔ ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے مشرف کے عدالت عالیہ میں حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواستیں بھی نمٹا دیں۔ ادھر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر جنرل نے کہا ہے کہ پہلے مشرف کو گرفتار کریں گے پھر ریمانڈ لیا جائے گا۔ درخواست کی سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام نے عدالت کے روبرو مو¿قف اختیار کیا کہ مچلکے داخل نہ کرانے کے باعث عبوری ضمانت کی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ دریں اثناءپرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ بے گناہی ثابت کئے بغیر ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ججز نظربندی کیس کے بعد بےنظیر بھٹو قتل کیس میں گرفتاری پر پرویز مشرف اپ سیٹ ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کئے بغیر ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ میں مشرف غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل نے چیف جسٹس کے بنچ کی تشکیل کے حوالہ سے اختیار چیلنج کرتے ہوئے م¶قف اختیار کیا ہے کہ ماضی میں بھی تعصب کی صورت میں جج بنچ سے خود الگ ہوتے رہے ہیں، اس کیس کی سماعت کیلئے بھی فل کورٹ تشکیل دی جائے لیکن اس میں چیف جسٹس کو نہیں ہونا چاہئے، بنچ کی تشکیل کے حوالہ سے چیف جسٹس کا اختیار رولز کا معاملہ ہے اس حوالہ سے آئین خاموش ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انصاف ایسا کریں گے کہ ہوتا ہوا نظر آئے گا‘ آئین و قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیں گے‘ کسی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے فیصلے نہیں دے سکتے‘ کوئی ہمیں پسند کرے یا نہ کرے‘ نفرت کرے یا محبت‘ ہم آئین و قانون سے باہر نہیں جا سکتے‘ کسی کی مخالفت کا بھی کوئی ڈر نہیں‘ ڈرتے وہی ہیں جو حق پر نہیں ہوتے ہمیں کسی بات کا کیا ڈر ہو سکتا ہے‘ فاضل وکلا کو دلائل کا پورا پورا موقع دیں گے‘ ہر طرح کی سہولیات بھی مہیا کریں گے‘ فیصلے اور دیگر قانون کی کتابوں کے حوالے چاہئے ہوں تو وہ بھی دیں گے اور جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ججز کبھی متعصب ہو کر فیصلے نہیں دیتے جج ہر لحاظ سے جج ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس سماعت کے دوران دئیے۔ سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت آج تک ملتوی کر دی، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عدالت پرویز مشرف کے معاملے میں انصاف کرے گی جو بھی ہو گا آئین اور قانون کے مطابق ہی ہو گا۔ انصاف سے کون خوش ہوتا ہے اور کون ناراض اس سے عدالت کو کوئی غرض نہیں، پرویز مشرف کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ 31 جولائی 2009ءکے فیصلہ پر نظر ثانی کر یں کیونکہ اس 14 رکنی بنچ کی سربراہی بھی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کی تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ پرویز مشرف والدہ کی تیمارداری کے لئے باہر جانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے م¶کل کی ہر قانونی مدد کرینگے۔ نہیں چاہتے کہ آپ کے م¶کل کو کسی قسم کا تعصب ملے۔ وکیل نے کہا کہ 9 مارچ 2007ءکے بعد سے سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار چودھری کے درمیان کھلا تنازعہ موجود ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے بیان حلفی میں پرویز مشرف کے خلاف ذاتی نوعیت کے الزامات عائد کئے تھے اس پر جسٹس جواد خواجہ نے ابراہیم ستی سے کہا کہ وہ اس بیان حلفی کی مصدقہ یا غیر مصدقہ نقول عدالت میں پیش کریں۔ ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ انہوں نے نقول کے حصول کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستی دی ہے تاہم ابھی یہ نقول نہیں ملیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کے وکلا کے پاس مصدقہ نقول نہیں ملیں تو عدالت اپنے ریکارڈ سے منگوا لے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ عدالت کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ انصاف فراہم کرے اور پرویز مشرف کو کسی بھی قسم کے تعصب کا شکار نہ ہونے دے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا چاہے اس فیصلہ سے کوئی خوش ہوتا ہے، ڈرتا ہے یا تسکین پاتا ہے یہ عدالت کا مسئلہ نہیں عدالت انصاف کرے گی کیس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔ عدالت صرف آئین اور قانون کے مطابق چلے گی۔ جسٹس جواد نے ابراہیم ستی سے کہا کہ وہ اپنے م¶کل کی مدد کریں ورنہ عدالت مدد کرے گی تو اس سے پرویز مشرف کو انصاف کے حصول میں مشکل پیش آئے گی۔ ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ ان کے م¶کل پر الزام ہے کہ انہوں نے ججز کو کام نہیں کرنے دیا۔ 1999ءسے 2000ءتک ججز کو نہیں چھیڑا گیا کسی مداخلت کے بغیر ججز اپنا کام کرتے رہے۔ 2000ءمیں جسٹس سعید الزامان صدیقی سمیت چھ ججوں نے پی سی او کا حلف لیا ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ 31 جولائی کے فیصلہ پر نظرثانی ضروری ہے۔ ٹکا اقبال خان کیس میں عدالت نے تین نومبر کے اقدام کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ 31 جولائی کے فیصلہ میں چیف جسٹس شامل تھے کوئی اپنے ہی خلاف ہونے جرم میں جج نہیں ہو سکتا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ تعصب والے جج کو بنچ میں شامل بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس خلجی نے ابراہیم ستی سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ موجودہ بنچ میں کوئی ایسا جج تو نہیں جس کو ان کے م¶کل سے تعصب ہو۔ ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف زیر حراست ہیں، ان کی کسی ریکارڈ تک رسائی ہے نہ ہی ریکارڈ کی مصدقہ نقول مل رہی ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر آپ اپنے موکل کی مدد نہیں کر سکتے تو عدالت مدد کرے گی۔ آئین کے تحت پرویز مشرف کو انصاف دینا عدالت کا فرض ہے۔ عدالت آئین سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گی چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ 2000ءتک مشرف نے کسی جج کو بھی نہیں چھیڑا۔ پرویز مشرف کے حلف کے بعد بھی ججز نے کام جاری رکھا۔ افتخار محمد چودھری نے 2000ءمیں پی سی او حلف لیا۔ نو مارچ 2007ءکو چیف جسٹس پرویز مشرف کیخلاف ہو گئے۔ چیف جسٹس نے بھی بیان حلفی میں پرویز مشرف پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگائے۔ 13 ججز نے ریفرنس سنا اور فیصلہ دیا کہ ریفرنس کا جواز نہیں بنتا اور یہ ذاتی نوعیت کا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ان مشکلات کے نتیجہ میں تین نومبر کا اقدام ہوا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں کہ عدالت 31 جولائی 2009ءکے فیصلے پر انحصار نہ کرے۔ ابراہیم ستی نے تعصب اور شفاف ٹرائل کے حوالے سے دلائل مکمل کر لئے۔ دوران سماعت ایک موقع پر سابق صدر مشرف کے وکیل جذباتی ہو گئے اور آصف علی زرداری کو آصف بھٹو کہہ گئے، جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ پہلے حیران ہوئے اور پھر ان کی تصحیح کی تاہم مشرف کے دوسرے وکیل احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ آصف زرداری بھی بھٹو کی کھال میں چھپے ہوئے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد بنیامین نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فےصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جس پر سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف آئی جی کی اپیل پر رینجرز کی اسلام آباد میں تعیناتی سے متعلق نوٹیفکیشن اور متعلقہ تھانے سے روزنامچہ اور ریکارڈ طلب کر لیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آئی جی کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت آئی جی کے وکیل عبدالعزیز نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کو 18 اپریل کو ساڑھے 3 بجے گرفتار کرلیا تھا اور 5 پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ وکیل آئی جی نے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کی رپورٹ 19 اپریل کو ہائیکورٹ میں جمع کرا دی تھی۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو آئی جی کے خلاف کارروائی کر کے رپورٹ جمع کرانے کا کہا ہے۔ آئی جی کے وکیل نے عدالت میں انکشاف کیا کہ مشرف کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ان کے تحفظ کیلئے دو سو رینجرز اہلکار اور ایس ایس جی کمانڈوز اسلحہ سمیت وکیلوں کے لباس میں موجود تھے جبکہ ایس ایچ او کو گاڑی اندر لانے کی اجازت نہیں تھی۔ مشرف کو فرار میں معاونت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ ایس ایس جی کمانڈوز وکیلوں کے لباس میں موجود تھے۔ وکیل نے بتایا کہ میڈیا کے کلپس منگوا کر دیکھ لیں ایسا ہی تھا۔ فاضل جج نے کہا کہ کار سرکار میں مداخلت پر اب تک کس کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا؟ آپ 200 افراد کے آنے کا کہہ رہے ہیں، مداخلت تو پھر ہوئی ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ رینجرز کو کراچی اور بلوچستان میں اختیارات دینے کا نوٹیفکیشن موجود ہے کیا اسلام آباد میں بھی ایسا آرڈر موجود ہے اگر ہے تو دکھائیں، عبدالعزیز ایڈووکیٹ نے کہا کہ پولیس مداخلت کرتی تو پولیس اور رینجرز میں تصادم کا خدشہ تھا۔ رینجرز نے مشرف کی گرفتاری میں مدد کی بجائے انہیں فرار کرایا۔ میں یہ کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں کہ وہاں رینجرز کی بھی بڑی تعداد تھی کسی کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ رینجرز فرار میں مدد کریگی۔ ملزم پرویز مشرف کو بلٹ پروف گاڑی میں لایا گیا اور یہ گاڑی کمرہ عدالت کے سامنے پارک کی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شاید ہمارے ذہنوں سے ابھی تک غلامی نہیں نکلی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ پوچھتی کہ آپ اسلحہ اٹھائے کیوں کھڑے ہیں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے مشرف فرار کیس میں آئی جی اسلام آباد بنیامین کی ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کی سماعت کے دوران حکم امتناعی دینے سے معذرت کرلی اور درخواست گذار سے عدالت عالیہ کا حکم ، تھانہ سیکرٹریٹ کا پولیس ریکارڈ معہ روزنامچہ اور رینجرز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن طلب کرلیا اور کہا کہ پرویز مشرف کے فرار کی فوٹیج بھی عدالت میں پیش کی جائے عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیارینجرز کا اقدام کارسرکار میں مدخلت تھا؟ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ امیر غریب کے درمیان تمیز کو اب بطور روایت ختم ہونا چاہئے کاسہ لیسی کرتے ہوئے ساری زندگی گزر گئی آئین و قانون کی بالادستی سے معاملات درست ہو سکتے ہیں کارسرکار میں مداخلت قابل دست اندازی جرم ہے، دو سو گارڈز اور رینجرز اہلکاروں کی موجودگی میں پولیس کے چند اہلکار کیا کر سکتے ہیں؟ بادی النظر میں پولیس نے انتظامات صحیح نہیں کئے تھے۔ نوابزادوں کا دور ختم قانون ہی سب کچھ ہے اسے اہمیت دی جانی چاہئے۔ بڑوں کے لئے اور چھوٹوں کے لئے الگ الگ قانون کیوں ہیں؟ پولیس نے ہائی کورٹ میں کمانڈوز کو کیوں نہیں روکا؟ آئی جی اسلام آباد کی جانب سے چودھری عزیز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ مشرف کیس میں پولیس نے سکیورٹی کی خاطر خواہ انتظامات کئے تھے تاہم دو سو رینجرز کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا، ساڑھے تین بجے مشرف گرفتار ہو چکے تھے ، جسٹس جواد نے کہا کہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے معیار دوہرا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وکیل نے کہا کہ مجھے تو عدالتی سمن پر بلایا گیا تھا، میں سپریم کورٹ میں مصروف تھا، تمام افسروں کا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے وہ دیکھ لیں۔ وکیل نے کہا کہ عام لوگوں کا خیال تھا کہ رینجرز اور پولیس نفری کی موجودگی کے بغیر کسی اور سکیورٹی کی ضرورت نہیں، ضمانت مسترد ہوئی تو گاڑی دروازے کے قریب موجود تھی وہ اس میں بیٹھے اور غائب ہوگئے۔ فوٹیج منگوا لیں دیکھنا چاہتے ہیں، آپ کا خیال تھا کہ یہ رینجرز کو پولیس اختیارات دئیے گئے ہیں بلوچستان میں بھی ایسا کیا گیا یہاں کیا حکم تھا یہ تو دیکھنا پڑے گا۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پولیس کی موجودگی میں ایسا ہوا کیوں؟ وکیل نے کہا کہ ایس ایس پی موجود تھے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ جس نے کار سرکار میں مداخلت کی اس کیخلاف کارروائی کی تھی۔ وکیل نے کہا کہ رینجرز نے ایسا نہیں کیا جو کچھ بھی ہوا اچانک ہوا، تفتیشی افسر نے بتایا بھی مگر اس وقت تک مشرف نکل کر جا چکے تھے، گیٹ پر موجود گارڈز کو بھی کہا گیا کہ گیٹ بند کر دیا جائے مگر اس کے بند ہونے سے قبل ہی وہ جا چکے تھے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کچھ چیزوں کی روایت چل پڑی ہے، آئین و قانون اسلامی فرائض ہیں ان پر جلد عمل پیرا ہو جائیں گے، ریکارڈ منگوالیں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ تھانہ سیکرٹریٹ نے اب تک کیا کیا ہے؟ عدالت نے کہا جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا اس سے پولیس کی اپنی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ بعدازاں عدالت نے آرڈر میں لکھوایا کہ آئی جی بنیامین خان وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے مشرف ضمانت کیس کے دوران نوٹ کیا تھا کہ مشرف کے ذاتی گارڈز کی وجہ سے ان کی گرفتاری نہیں ہوئی اور آئی جی سے کہا تھا کہ پولیس کی تعیناتی کیوں نہیں کی گئی تھی اور رپورٹ طلب کی تھی جس میں ان کیخلاف ایکشن لینے کا معاملہ بھی شامل تھا۔ آئی جی نے اپنی ڈیوٹی صحیح نہیں دی تھی جس کی وجہ سے مشرف کو فرار ہونے کا موقع ملا سپریم کورٹ یہ تمام متعلقہ ریکارڈ بھی جمع کروا دیا گیا ہے آئی جی پولیس محکمہ کا سربراہ ہونے کی وجہ سے پولیس کو تعینات کرنے کی ان کی ذمہ داری تھی اس لئے ان کو ہی کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ڈی پی او، ایس ایچ او اور دیگر چالیس پولیس اہلکار موجود تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ عدالت جو بھی حکم جاری کرے اس پر عمل کرایا جا سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے نے بےنظیر بھٹو قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پرویز مشرف سے تحقیقات کے لئے جسمانی ریمانڈ بھی لیا جائے گا۔ درخواست آج دی جائے گی۔ پبلک پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو سکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سابق صدر پرویز مشرف کا جسمانی ریمانڈ لینے یا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا فیصلہ نہ کر سکی۔ ٹیم نے فیصلہ آج پر چھوڑ دیا کوئی بھی فیصلہ پرویز مشرف کی ضمانت خارج ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ پولیس نے ججز نظربندی کیس میں 3 نومبر کے واقعات کا ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، کابینہ ڈویژن اور پی ٹی وی کو خطوط لکھ دئیے ہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ کسی عالمی فورم سے رجوع نہیں کیا۔ سابق صدر کو دو کمروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔
مشرف کو رینجرز نے عدالت سے فرار کرایا‘ وکیل آئی جی اسلام آباد: نوابزادوں کا دور گیا‘ قانون ہی سب کچھ ہے : سپریم کورٹ
Apr 25, 2013