خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ماریہ بنت ابوالحسن
سیدہ فاطمہؓ حضورؐ کی سب سے چھوٹی صاجزادی ہیں بعثت نبوی کے وقت جب حضورؐ کی عمر مبارک 41 سال تھی حضرت فاطمہؓ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں سیدہ فاطمہؓ کے القاب میں چند مشہور القاب  زہرا، بتول، زکیہ، رافیہ، طاہرہ،  سیدۃ النساء اہل الجنتہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی پرورش  اور تربیت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا اور آنخضرت ؐ نے فرمائی اور انہیں کی نگرانی میں سن شعور کو پہنچیں مسلم شریف میں ہے:
’’  سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا جس وقت چلتی تھیں تو آپ کی چال ڈھال اپنے والد امام الانبیائؐکے بالکل مشابہہ ہوتی تھی‘‘
حضورؐ کے ساتھ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے قیام و قعود نشست و برخاست، عادات و اطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ آپ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں حضورؐ کعبۃ اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے قریش کے چند شریروں نے شرارت کرتے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر خیرالانامؐ کے اوپر رکھ دی حضورؐ حالت سجدہ میں تھے قریش اس حرکت پر مسرور ہوئے۔ سیدہ فاطمہؓ کا بچپن تھا کسی نے جا کر بتلایا تو دوڑتی ہوئی تشریف لائیں اور اس بوجھ کو اتارا اور کفار سے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابوجہل نے سیدہ فاطمہؓ کو کسی بات پر تھپڑ مارا، کمسن سیدہ روتی ہوئی سید الاولین و لآخرین ؐ کے پاس حاضر ہوئیں۔ آپؐ نے ان سے فرمایا بیٹی! جائو اور ابو سفیانؓ کو ابوجہل کی اس حرکت سے آگاہ کرو۔ وہ ابوسفیانؓ کے پاس گئیں اور انہیں سارا واقعہ سنایا، ابوسفیانؓ نے سیدہ کی انگلی پکڑی اور سیدھے ابوجہل کے پاس گئے اور سیدہؓ سے کہا کہ جس طرح اس نے تھپڑ مارا ہے تم بھی اسے تھپڑ مارو۔ اگر یہ کچھ بولے گا تو میں نمٹ لوں گا۔ چنانچہ سیدہؓ نے ابوجہل کو تھپڑ مارا اور گھر جا کر حضورؐکو سارا واقعہ سنایا تو حضورؐ نے ان کے لئے دعا فرمائی: ’’اے اللہ ابوسفیانؓ کے اس سلوک کو نہ بھولنا‘‘۔
ماہ رجب 2 ہجری میں سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علی المرتضیؓ سے ہوا اور نکاح کا مہر چار صد مشکال مقرر کیا گیا۔ نکاح کے وقت سیدنا علیؓ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اور سیدہ فاطمہؓ کی عمر پندرہ ، اٹھارہ یا انیس سال تھی اس نکاح کی تقریب میں جید صحابہ کرامؓ  کی بڑی تعداد شریک تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا  عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ شامل تھے آنخضرتؐنے فرمایا!
’’فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہے‘‘ (البدایۃ)
’’فاطمہؓ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گی‘‘ (کنز العمال)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریمؐ  فرماتے ہیں کہ فاطمہؓ خواتین امت کی سردار ہے فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اس نے اللہ کو تنگ کیا جس نے اللہ تعالیٰ کو تنگ کیا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ کرے۔ آقاؐ نے حضرت علی المرتضیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے درمیان خانگی امور کی تقسیم اس طرح فرمائی کہ فاطمہؓ اندرون خانہ سارا کام سر انجام دیں گی۔ اور علی المرتضیؓ بیرون خانہ کے فرائض انجام لائیں گے۔ سرکار دو عالمؐ غزوہ احد میں زخمی ہوئے تو حضورؐ کے زخموں کی مرہم پٹی کا بے مثال کارنامہ سر انجام دینے والی شخصیت سیدہ فاطمہؓ کی ہے اور بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ فاطمہؓ غزوہ احد میں حضورؐ کے زخموں کو دھو رہی تھیں۔ اور سیدنا علی المرتضیؓ پانی ڈال رہے تھے۔ جب دیکھا کہ پانی ڈالنے کی وجہ سے خون بہہ رہا ہے تو ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ زخموں پر لگائی جس سے خون بند ہو گیا (بخاری جلدثانی)
حضورؐ سیدہ فاطمہؓ سے بہت محبت فرماتے۔ جب ملنے کی غرض سے تشریف لاتیں۔ تو حضورؐ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے، ماتھے پر بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ جب حضورؓ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو سیدہ فاطمہؓ احتراماً کھڑی ہو جاتیں آپؐ کے دست مبارک کو بوسہ دیتیں اور اپنی نشست پر بٹھا لیتی تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ کی عمر 29 سال تھی۔ جب حضورؐ نے رحلت فرمائی حضورؐ  کو حضرت فاطمہؓ سے بڑی محبت تھی کیونکہ اب صرف اولاد میں وہی  حیات تھیں۔ حضورؐنے وصال سے ایک دن قبل بلایا۔ اور جب تشریف لائیں توآپؐ نے ان کے کان میں باتیں کیں۔ سیدہؓ آبدیدہ ہوئیں۔ پھر بلا کر کان میں کچھ کہا تو ہنس پڑیں۔ جب سیدہؓ سے حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ حضورؐنے کیا فرمایا تھا؟ تو غرض کرنے لگیں کہ پہلی دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ میں اسی حالت میں انتقال کروں گا تو مجھے رونا آ گیا۔ اور دوسری دفعہ فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی مجھے آ کر ملو گی تو میں ہنسنے لگی (صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۳۶)
حضورؐ  کی رحلت پر نہایت دردوسوز کے عالم میں فرمایا تھا۔
 ’’مجھ پر مصیبتوں کے اس قدر پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کہ اگر یہ مصیبتوں کے پہاڑ دنوں پر ٹوٹتے تو دن بھی رات بن جاتے‘‘
 سیدہ فاطمہ الزہرہؓ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا جنازہ رات کے وقت اٹھایا جائے تاکہ اس پر غیر مردوں کی نظر نہ پڑے۔ سیدہؓ کو غسل حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے دیا۔ معاونت میں حضرت ابورافع (جو حضورؐ کے غلام تھے) کی بیوی سلمیٰ ام ایمن شامل تھیں۔ اس سارے انتظام کی نگرانی حضرت علی المرتضیؓ فرما رہے تھے۔ سیدہ فاطمہ الزہراہ ؓسے خالق کائنات نے حضرت علی المرتضیؓ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں۔ تین لڑکے اور دو لڑکیاں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں، حضرت حسنؓ حضرت حسینؓ حضرت زینبؓ حضرت ام کلثومؓ حضرت محسنؓ ۔
اللہ مسلمانوں عورتوں کو خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے نقش قدم پر چلائے۔ امین!

ای پیپر دی نیشن