بم دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ، املاک کا نقصان، قیمتی جانوں کا ضیاع، بہتا خون، ارزاں لہو، رستے زخم اور یہ ملک بھر میں پھیلے خاک خاک منظر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم حالتِ امن میں نہیں بلکہ حالتِ جنگ میں ہیں۔ اگر یہ جنگ جاری بھی رہنی ہے (جو کہ نہیں رہنی چاہیے) تو کیا ضروری نہیں کہ اس جنگ میں ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع اور مادی وسائل کے نقصانات کو انتہائی کم ترین سطح پر لایا جائے؟ اِن خاک و خون میں لتھڑے مناظر میں ہماری اولین کوشش تو یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس جنگ کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکیں اور جس قدر جلد ممکن ہو اس جنگ سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔ لیکن ایک کروڑ روپے کا سوال یہی ہے کہ اس مقصد میں کس طرح کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے؟ تو یہ کوئی مشکل بھی نہیںکیونکہ دنیا کی حربی تاریخ اس مقصد میں کامیابی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم ان واقعات سے کچھ سیکھنا نہیں چاہتے تو اس آگ سے بچنے کے سیدھے سیدھے ’’جٹکا طریقے‘‘ بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگرہم اس خطے میں ایک بڑی جنگ سے گریز کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ماحول سے مکمل طور پر باخبر رہنا ہو گا، ہمیں نہ صرف اپنے خطے میں بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے واقعات اور جنم لینے والے ایشوز سے مکمل طور پر باخبر رہنا ہو گا۔ ہمیں اپنے ساتھ منسلک دوسرے علاقوں اور ملکوں کو بھی ان ایشوز کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھنا ہو گا۔ امن کا راستہ پکڑنے کیلئے ہمیں یہ آگاہی بھی ہونی چاہیے کہ ہمارے اردگرد ہمہ وقت کیا کچھ ہو رہا ہے؟ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں کون کون سے نئے رجحانات چل رہے ہیں۔ ہمیں اپنے خطے میں ہونی والی معمولی سے معمولی تبدیلی کو بھی اہمیت دینی چاہیے اور کسی اُسے صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت ہم جن حالات میں سے گزر رہیں اور ہمارے خطے میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، ایسا تاریخ میں کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ دنیا کے بے شمار علاقے ہزاروں مرتبہ اس طرح کی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جن ممالک یا قوموں پر ایسا وقت آیا، انہوں نے ان حالات سے کیسے نجات حاصل کی؟ جن علاقوں کو ماضی میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا، ہمارے سٹرٹیجک اداروں کو ان کے معاشی، معاشرتی، سماجی، مذہبی، تاریخی ، ثقافتی، عسکری اور سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس جنگ کی بہت سی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ کچھ طبقات کو خدشہ ہے کہ اُن پر بیرونی تہذیب یا ثقافت مسلط کر دی جائے گی، اس لئے وہ علاقے اور وہ لوگ، جنہیں یہ خطرہ ہے کہ اُنہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اگرچہ طالبان کے ساتھ امن کیلئے مذاکرات تو ہو ہی رہے ہیں تاہم شدت پسندی میں ملوث عناصر کو معمول کی زندگی کی جانب واپس لانے کیلئے ان کے ساتھ ’’بیک چینل‘‘ مذاکرات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اگر بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی اختیار کی جا سکتی ہے تو اپنے ہی علاقے کے طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر کے ساتھ بھی ایسا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ متحارب قوتوں کے درمیان کمیونیکیشن لائن جس قدر زیادہ مضبوط ہو گی، لڑائی اسی قدر جلدی ختم ہو جاتی ہے۔ ابلاغ کی طاقت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔ اس لیے اس کمیونیکیشن لائن کو مضبوط کرنے کیلئے ابلاغ کے تمام ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ شدت پسندی کے خاتمے کیلئے ہمیں فریقین کے ساتھ ابلاغ کرنے سے گھبرانا یا گریز نہیں کرنا چاہیے۔ باعزت روزگار، معمول کی زندگی، محفوظ مستقبل، معاشرے میں مساوی مقام اور ترقی کرنے کے یکساں مواقع ملنے کی ضمانت ملے تو یقیناً ایسے لوگوں کو شدت پسندی ترک کرنے پر رضامند کیا جا سکتا ہے جو مایوسی کے عالم میں خود بھی مر رہے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ ایسے افراد اور شورش زدہ علاقوں کی فلاح و بہبود کیلئے جتنے زیادہ اقدامات کئے جائیں گے تو معاشرے سے کٹے ہوئے یہ لوگ خود کو جدید دنیا میں اتنا ہی کم اجنبی محسوس کریں گے اور جس قدر وہ اپنے آپ کو اس دنیا میں کم اجنبی محسوس کریں گے، انہیں معمول کی زندگی کی جانب واپس لانے میں آسانی رہے گی۔ ملک میں مکمل امن قائم کرنے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرنی چاہیے۔ شدت پسندی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات سے رائے لی جانی چاہیے۔ شدت پسندی کے خلاف اپنا مقدمہ کمیونٹی کے سامنے پیش کریں۔ عوام کو شدت پسندی کے منفی اثرات کے بارے میں غیر مبہم انداز میں بتایا جائے۔ کمیونٹی میں ہر سطح پر بحث و مباحثے کیلئے فورم قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ اس مقصد کیلئے تفریحی میڈیا کو بھی آگاہی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے معاشرے میں ’’پینی ٹریشن‘‘ کیلئے بالعموم انصاف کا نعرہ بڑے تسلسل اور بلند آہنگ کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرسودہ نظام کی چکی میں پسنے والے افراد شدت پسندی کی جانب تیزی سے مائل ہو جاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں سستا اور فوری انصاف دستیاب ہو گا تو معاشرے میں شدت پسندوں کی ’’پینی ٹریشن‘‘ بھی اسی قدر کم ہو جائے گی۔ یہ اہم نکتہ ہے، لہٰذا اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ترجیحی سطح پر اسے کم درجے پر رکھا جا سکتا ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات تک سماجی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی انصاف کی فراہمی کیلئے نہ صرف سنجیدہ اور عملی اقدمات کی ضرورت ہے بلکہ ان اقدامات کو ثمر آور اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ان پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کو ہر طرح کا انصاف ان کی دہلیز پر دستیاب ہو گا اور انہیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیںگے تو ان میں شدت پسندی اور جدید دنیا سے بیزاری کے جراثیم پنپنے سے پہلے ہی مر جائیں گے۔
قارئین محترم! جب ایک مرتبہ جنگ چھِڑ جائے تو ظاہر ہے کہ اسے فوراً روکنا ممکن نہیں ہوتا، لیکن یہ کوشش ضرور کی جا سکتی ہے کہ جنگ میں انسانی اور مادی وسائل کا کم سے کم نقصان ہو، جس کے بعد دوسرے مرحلے پر اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جنگ کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا جائے اور تیسرے مرحلے میں جنگ کو اختتام کی جانب لایا جائے۔ پاکستان میں امن مذاکرات کے مخالفین کو اپنی نظریات، مفادات اور مقاصد کیلئے اندھا ہو کر نہیں سوچنا چاہیے کیونکہ ایک جانب عراق سے لے کر افغانستان تک تباہی اور بربادی کے جابجا مناظر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ لڑائی جس قدر طول پکڑے گی، انسانی جانوں کا ضیاع اور مادی وسائل کا نقصان اسی قدر زیادہ ہو گا اور دوسری جانب یورپ اور امریکہ کی اقتصادی منڈیوں کو چپکے چپکے فتح کر لینے والے پڑوسی ملک چین کی ایک کہاوت سرگوشی کر رہی ہے کہ ’’جہاں لڑائی کا خدشہ ہو، وہاں ناتواں اور کمزورکو لڑائی سے پرہیز جبکہ بالادست اور طاقتورکو لڑائی سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘
چینی کہاوت کی سرگوشی
Apr 25, 2014