اینکر پرسن حامد مِیر پر قاتلانہ حملہ کرنے والے دو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں کے خلاف تحفظِ پاکستان آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کر لِیا گیا ہے ۔کراچی ائر پورٹ پولیس کے مطابق یہ مقدمہ سب انسپکٹر شہادت خان کی مُدّعیت میں درج کِیا گیا ہے۔ مقدمہ کی تفتیشی ٹیم میں شامل ڈی آئی جی اِیسٹ مسٹر منِیر شیخ نے بتایا کہ ’’ ہم چار روز سے حامد مِیر صاحب کے اہلِ خانہ سے رابطہ قائم کر رہے تھے لیکن وہ مقدمہ درج کرانے نہیں آئے اور حامد صاحب کی طبیعت کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بیان دینے کے لئے"Fit" نہیں ہیں جِس کی وجہ سے مقدمہ سرکار کی مُدّعیت میں درج کِیا گیا ہے‘‘ عجیب بات ہے کہ مسٹر عامر لیاقت نے میڈیکل ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود حامد مِیر سے مُلاقات کے بعد 22 اپریل کو جیو نیوز پر ہاتھوں کو نچا نچا کر اور دِیدے مٹکا مٹکا کر بار بار اعلان کِیا تھا کہ ’’ گولیاں لگنے کے بعد حامد مِیر نے کلمہ طیّبہ کا وِرد کِیا نعرہ تکبیر بلند کِیا اور مسلسل ’’پاکستان زند ہ باد ‘‘ کے نعرے لگائے جو اُن کی حُب اُلوطنی کا وا ضح ثبوت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کلمہء طیّبہ کا وِرد تو خیر دبی زبان سے بھی کِیا جا سکتا ہے لیکن نعرہ تکبِیر بلند کرنے اور مسلسل پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے میں تو کافی زور لگتا ہے؟۔ کیا ’’ مُلّا تِین پیازہ ‘‘ اپنی عادت کے مطابق ’’آن لائن ‘‘جھوٹ بول رہے تھے ؟۔دوسرا سوال یہ ہے کہ حامد مِیر کے اہلِ خانہ اپنے سربراہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے متعلقہ تھانے کیوں نہیں گئے ؟۔ پولیس سے اُن کا رابطہ کیوں نہیں ہو سکا؟ حامد مِیر کے چھوٹے بھائی عامر مِیر کہاں ہیں؟ کہ جنہوں نے 19اپریل کو ہی جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ حامد مِیر پر حملے میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اُلاسلام ملوّث ہیں ‘‘۔ عامر مِیر نے کہا تھا کہ ’’ حامد مِیر نے مجھے گھر والوں جنگ گروپ کی انتظامیہ اور چند دوستوں کو پہلے ہی بتا دِیا تھا کہ ’’ آئی ایس آئی ۔کے چِیف نے اُن کے قتل کا منصوبہ بنایا ہے اور اگر اُن پر حملہ ہُوا تو اُس کے ذمہ دار لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اُلاسلام اور آئی ایس آئی کے دوسرے حُکام ہوں گے‘‘۔
عامر مِیر کے بیان کے بعد جنگ /جیو گروپ سے وابستہ اہلِ قلم اور اہلِ زبان نے نہ صِرف آئی ایس آئی بلکہ پاکستان فوج کی مسلّح افواج کے خلاف تحریری اور تقریری محاذ کھول دِیا ۔جیو نیوز پر بار بار لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اُلاسلام کی تصویر دِکھا کر انہیں "Most Wanted" شخص کے طور پر دکھایا گیا۔ جِس کے بعد قومی اور بین الاقوامی سطح پر حامد مِیر کی ’’مُبینہ شہرت‘ میں تو اضافہ ہُوا لیکن اِس سے پاکستان کے دشمن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور مختلف تنظیموں کو پاکستان کی مسلّح افواج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ۔طالبان نواز پاکستانی صحافیوں نے بھی الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اُلاسلام کو’’ ناپسندیدہ‘‘ قرار دے دیا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا اور قلم نچوڑ نچوڑ کر لِکھا کہ ’’ چِیف آف آرمی سٹاف پاک فوج کی ساکھ قائم رکھنے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر اُلاسلام کو اُن کے عہدے سے سبکدوش کر دیں ‘‘۔
عامر مِیر آئی ایس آئی کے سربراہ پر بہت ہی سنگین الزام لگا کر کہاں غائب ہو گئے؟ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ پر اپنے بڑے بھائی پر قاتلانہ حملہ کرانے کے الزام لگا کر انہیں ملزم نامزد کرنے کے لئے مُتعلقہ تھانے میں مقدمہ (F-I-R) درج کرانے کیوں نہیں پہنچے؟ کیاوہ کسی کے دبائو میں ہیں؟ یا کوئی دوسرا معاملہ ہے؟۔ کہیں وہ پاکستان سے باہر تو نہیں چلے گئے؟ اِن سب سوالوں کا جواب حامد مِیر پر قاتلانہ حملہ ،قابلِ مذمّت ہے اور مجرموں کو سخت سزا دی جانا چاہیے ۔ وزیرِاعظم نواز شریف حامد مِیر کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے اور انہوں نے قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمِشن بھی بنا دِیا ہے لیکن حامد مِیر کے اہلِ خانہ نے۔ خاص طور پر عامر مِیر نے، خود مُدّعی نہ بن کر اور چُپ رہ کر اِس مقدمے کو کمزور کر دِیا ہے۔ اُنہیں تو مقدمہ درج کرانے کے لئے مُتعلقہ تھانے میں دھرنا دینا چاہیے تھا ۔
جنگ/جیو گروپ کے آئی ایس آئی پر الزامات کے بعد چیف آف آرمی سٹاف نے اپنا سارا وزن پاک فوج کے پلڑے میں ڈال دِیا ہے اور جب مسلم لیگ ن کے بعض وزراء نے دونوں فریقوں کوخُوش کرنے کی کوشش کی تو وزیرِاعظم نواز شریف کو اُن کی زبان بندی کرنا پڑی ۔وفاقی وزیرِاطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ’’ مِیڈیا میرا عِشق ہے اور قومی سلامتی کے ادارے میرا ایمان‘‘۔ وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’’ پاک فوج پاکستان کی سرحدوں کی محافظ ہے اور مِیڈیا نظریاتی سرحدوں کا ‘‘ سینیٹر پرویز رشید کو اپنے ’’ عِشق کا خلاصہ‘‘ کھولنا پڑے گا اور خواجہ سعد رفیق کو ’’ نظریاتی سرحدوں کے محافظ میڈیا ‘‘ کی وضاحت بھی کرنا ہو گی کہ کیاعلّامہ اقبالؒ اور قائدِاعظمؒ کا پاکستان امن کی آشا الاپنے کے لئے بنایا گیا تھا ؟ حضرتِ داغؔ دہلوی تو خیر غیر سیاسی تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ ؎
’’ کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھِر گیا
اُس بُت کو دیکھتے ہی ، اِیمان پھِر گیا ‘‘
بھارت؟ یہ کیسا ’’ بُتِ کافر ‘‘ ہے؟ کہ جِس کی ادائیں دیکھ کر کعبہء پاکستان کے پاسبانوں کا ایمان پھِر جاتا ہے ؟۔ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کو جنگ /جیو بند کرانے اور ادارتی اور انتظامیہ ٹِیم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے وزارتِ دفاع کی طرف سے بھجوائی گئی سمری پر دستخط کرنا پڑے ۔پیمرا اور ہائی کورٹ کے بعد آخری فیصلہ تو سُپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے ۔جہاں تک جنگ /جیو کی بندش کا تعلق ہے اُس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ پوری دُنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو گی ۔وہ لوگ کسی دوسرے نام سے اخبار یا چینل شروع کر لیں گے ۔کئی کالعدم دہشت گرد تنظیمیں بھی تو دوسرے ناموں سے اپنے اپنے جھنڈے لہرائے پھِرتی ہیں ۔اُن کا کسی نے کیا بگاڑ لِیا۔ تحریکِ طالبان بھی تو ’’ کالعدم ‘‘ہے جِس سے ساری سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے مینڈیٹ لے کر منتخب حکومت مذاکرات کر رہی ہے ۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ’’ مذاکرات کے عمل کو پاک فوج کی حمایت حاصل ہے‘‘ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان سے ’’مسماۃ امن کی آشا‘‘ کو سرحد پار کیسے دھکیلا جائے ؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ کشمیری‘‘ ایک بہادر قوم ہے ۔آزادی کے حصول کے لئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 7 لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید ہو چُکے ہیں۔ بھارتی فوجی 60 ہزار سے زیادہ ہماری کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کی عِصمتیں لُوٹ چُکے ہیں ۔ کِیا اِس کے باوجود بھارتی درندوں سے امن کی آشا؟ شاعرِ سیاست کہتے ہیں کہ ؎
’’ کرتے ہو کیوں،کھیل تماشا؟
مَیں کیا جانوں ، پرائی بھاشا ؟
مُنہ میں رام ،چھُری ہے بغل میں!
دجل فریب ،امن کی آشا !