با حجاب خواتین کی نمائندگی سے عاری ہمارا میڈیا

Apr 25, 2015

قرۃ العین فاطمہ

پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے میڈیا کو آزاد کرنے سے بہت سی تبدیلیاں غیر محسوس انداز میں ہماری ثقافت کا حصہ بن گئیں جنھوں نے ہماری تہذہب و ثقافت کے معنی بدل دیے ہیں ۔ نت نئے چینلز کی بھرمار اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہم اپنی اصل مذہبی،قومی اور اخلاقی اقدار سے دور ہوتے گئے ۔ وہ لباس جو اصل اسلامی اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار تھا دھیرے دھیرے مغربی اور ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آنے لگا ۔ جو جتنا مغربی تہذیب کا دلدادہ ہے اور اسلامی تہذیب سے دور ہے وہ اتنا مہذب اور لبرل تصور کیا جاتا ہے ۔ دنیا میں اس وقت سب سے بڑا چیلنج تہذہبوں کی بقا کا ہے ۔دنیا کے تمام ممالک اور قومیں اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہی۔جس میں ہر ملک کا میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ ان کے ڈرامے ، فلمیں اور تمام ٹی وی پروگرامز میں مذہبی رسومات ، لباس اور عقائد کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ میڈیا ثقافت کے فروغ کا اہم اور تیز ترین ذریعہ ہے ۔ پاکستانی ثقافت اس وقت مغربی اور ہندوانہ تہذیب و ثقافت کی یلغار کا شکار ہے۔ اس صورت حال نے پاکستانی قوم کو ایک ایسے المیہ سے دوچار کر دیا ہے جس نے اس کے اصل دینی اور اخلاقی اقدار اور روایات سے تعلق خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے ۔ اس کا ایک مظہر ہمیں الیکٹرانک میڈیا میں دکھائی دیتا ہے ۔ مثلا خواتین نیوز اینکرز کے سروں سے ڈوپٹوں کا کھسکتے کھسکتے گلے سے بھی غائب ہو جانا اور لباس کا مختصر ہو جانا ۔ یہ وہی صورت حال ہے جس سے آگاہ کرتے ہوئے سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایاتھا کہ ایک ایسا دور آئے گا کہ عورتیں لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی ۔ بچپن میں ہم دیکھتے تھے کہ پی ٹی وی پر نیوز اینکرز بڑے با وقار انداز میں خبریں پیش کرتی تھیں ۔ اس میں حسن اور لباس کی نمائش نہیں ہوتی تھی ۔ پاکستانی ڈرامے ہمارے کلچر کے عکاس تھے ۔ خواتین مشرقی تہذیب میں رنگی ہوئی ہوتیں ۔ اور ان سادگی سے بھرپور ڈراموں نے اب تک ہمسایہ ملک کی فلم انڈسٹری سے بڑھ کر داد وصول کی اور اب تک یہ ڈرامے دونوں ممالک کے لوگوں کی انمٹ یادوں کا حصہ ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اب پاکستانی سرکاری ٹی وی پر بھی اسی مغربی اور ہندوانہ کلچر کا راج ہے ۔ میڈیا عام لوگوں کی رائے عامہ ہموار کرنے کے علاوہ ان کے رہن سہن کے طریقوں ، اخلا قی طور طریقوں ، آداب معاشرت اوررسوم و رواج پراثر انداز ہوتا ہے ۔ اب خواتین محض ایڈور ٹائزمنٹ کا ذریعہ بن چکی ہیں جن کا کام صرف منظر میں رنگ بھرنا ہے ۔ میڈیا اور دیگر پرائیویٹ اداروں میںنوکری کے لیے صرف ماڈرن اور پر کشش خواتین کی ہی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اخباری اشتہارات میں یہ ڈیمانڈ جلی حروف میں لکھی جاتی ہے ۔ شاپنگ مالز ہوٹلز، ملٹی نیشنل کمپنیز ، مختلف نوعیت کے پرائیویٹ ادارے ، این جی اوز اور بینکو ں میں خواتین پینٹ کوٹ اور ٹائی میں دکھائی دینے لگی ہیں ۔ جہاں ڈریس کو ڈ نہیں ہے وہاں خواتین کا خوبصورت اور ماڈرن ہونا بے حد ضروری ہے ۔ آجکل پرائیویٹ سیکٹر میں ماڈرن خواتین کو با حجاب اور ڈوپٹہ اوڑھنے والی خواتین پر ترجیح دی جا رہی ہے ۔
بہت سی با صلاحیت خواتین حالات سے تنگ اور مجبورہو کر اپنے دوپٹے کی قربانی دیتی ہیں ۔ جہاں تک سوال آزاد میڈیا کا ہے تو وہاں ہمیں کوئی نیوز اینکر یا اینکر پرسن سکارف اوڑھے اور دوپٹہ اوڑھے مشرقی اور اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتی نظر نہیں آتی ۔ ہماری آبادی کا تقریبا ً انچاس فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے ۔ اس وقت خواتین تعلیم کے میدان میں مردوں سے آگے بڑھ گئی ہیں ۔ ہر سال پوزیشن ہولڈرز زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ پاکستان میں 90 فی صد خواتین دوپٹہ اوڑھتی ہیں ۔ ہمارا میڈیا اس انتہائی کم تناسب کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ماس کمیونیکیشن پڑھنے والی میری بہت سی دوست جنھوں نے ایک مثبت جذبے کے تحت اس فیلڈ کو اپنایا تھا اور اپنی زندگی کے قیمتی سال اس پر صرف کیے تھے آج اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں ۔ ان کے اندر ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں انکا جرم اپنے دین اور اپنی تہذیب سے محبت کرنا ہے ۔ اور میڈیا کی اس غلط ڈیمانڈ پر پورا نہ اترنا ہے ۔ میری ایک دوست جنھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں تعلیم حاصل کی ۔ ایک ٹی وی چینل نے نہ صرف ان سے پروگرام کا آئیڈیا لیا ،تمام پروگرامز کا ریسرچ ورک کروایا اور اس کے بعد یہ پروگرام ایک خوبصورت اور ماڈرن اداکارہ کو دے دیا ۔ جس کا ماس کمیونیکیشن میں کوئی تعلیمی بیک گراونڈ نہیں تھا۔اور تو اور اسے طے شدہ معاوضہ بھی ادا نہیں کیا گیا۔ اس استحصال کی وجہ محض اسکا سکارف تھا۔اسی طرح کئی دوستوں کو جاب ریکوائرمینٹ کے نام پر دوپٹہ اتارنے کا بھی کہا گیا۔اور اگر کسی نے احتجاج کیا تو ان کو کہا گیا کہ آپ کو کس نے کہا یہ فیلڈ اپنائیں ۔ یعنی اسلامی جمہوریہ کے میڈیا کی فیلڈ میں مثبت سوچ رکھنے والی با حجاب ، با صلاحیت خواتین کی کوئی جگہ نہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ نوکری کے حصول کے لیے انھیں مغربی تہذیب کے پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے ۔ ہم فرانس اور مغربی ممالک میں نوکری کرنے والی خواتین کے سکارف اوڑھنے پر پابندی لگانے پر تو واویلا کرتے ہیں ۔ تو کیا اسلامی جمہوریہ کے اندر یہی پابندی موجود نہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو میڈیا پر 90 فی صد آبادی کی نمائیندہ مشرقی تہنذیب کی عکاس خواتین کیوں نظر نہیں آتیں ؟ کیا برصغیر کی تقسیم لا الہ کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی ؟ جس کے تحت اپنے دینی تہذیب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کیا قائد اعظم نے اپنے بے شمار خطابات میں پاکستانی قوم کو اسی کی خوشخبری نہیں دی تھی؟ آج وہ وعدے اور خوشخبریاں کہاں گئیں ۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور پاکستانی قوم کے لیے بھی۔

مزیدخبریں