لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین عدلیہ کو مکمل مالی خود مختاری اور آزادی دیتا ہے۔ مالی اور انتظامی اخراجات کیلئے ہائیکورٹ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ کی طرف سے جوڈیشل الائونس کیلئے دائر رٹ درخواست میں جاری 27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی کیلئے آزاد اور مضبوط عدلیہ لازمی ہے جس کیلئے عدلیہ کا مالی طور پر خودمختاراور آزاد ہونا ضروری ہے۔ معاشی خودمختاری اور بجٹ اخراجات کیلئے ہائیکورٹ کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اگر ایسا کیا گیا تو عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی، فیصلے کے مطابق آئین کا آرٹیکل 121 اور122 عدلیہ کو مکمل مالی خودمختاری دیتا ہے۔ دونوں آرٹیکلز کے تحت عدلیہ کے بجٹ اور اخراجات کی ڈیمانڈ پر اسمبلی میں صرف بحث ہو سکتی ہے مگر ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔ انتظامیہ کو عدلیہ کے بجٹ اور اخراجات کی ڈیمانڈ میں تبدیلی کا بھی اختیار نہیں۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں بھارت سمیت غیرملکی عدلیہ کے مالی خودمختاری اور آزادی سے متعلق فیصلوں کے بھی حوالے دیئے ہیں۔ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 208 کے تحت گورنر پنجاب کے اختیارات سے متعلق نیا اصول طے کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ گورنر پنجاب سے ہائیکورٹ کے بجٹ اور اخراجات سے متعلق ڈیمانڈ کی منظوری لینا لازمی نہیں ہے جبکہ ہائیکورٹ کے بجٹ اور اخراجات کے معاملے میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی سے مراد صرف ججز نہیں بلکہ انتظامی افسر بھی اس مد میں آتے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قانون کی بالادستی کیلئے مضبوط اور آزاد عدلیہ ضروری ہے۔ حکومت عدلیہ کے ملازمین کو فوری جوڈیشل الاؤنس جاری کرے۔