عمران خان اب منظم دھاندلی کا الزام ثابت کرنے کیلئے الیکشن ٹربیونل پر توجہ مبذول کریں

Apr 25, 2015

اداریہ

ٹیسٹ کیس بنائے گئے کراچی کے ضمنی انتخاب نے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا زعم توڑ دیا

کراچی کے حلقہ این اے 246 کے ضمنی انتخاب میں گزشتہ روز ایم کیو ایم متحدہ کے کنور نوید نے 95 ہزار سے زائد ووٹوں کے ذریعے اپنے مدمقابل پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کیخلاف نمایاں کامیابی حاصل کرکے قومی اسمبلی کی یہ نشست متحدہ کو واپس دلوادی۔ یہ ضمنی انتخاب پاکستان الیکشن کمیشن کے ماتحت پاکستان رینجرز کی کڑی نگرانی میں ہوا چنانچہ اس انتخاب میں روایتی انتخابی دھاندلی کے کلچر کو بھی شکست ہوئی جبکہ اس ایک نشست کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے عام انتخابات میں منظم دھاندلی سے متعلق عمران خان‘ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے الزامات بھی کمزور بنادیئے ہیں۔ اس ضمنی انتخاب میں متحدہ کو چیلنج کرنے اور بھرپور انتخابی مہم چلانے کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل کے ووٹوں کا فیگر 2013ء کے عام انتخابات میں اس پارٹی کے امیدوار کو پڑنے والے 37 ہزار ووٹوں تک نہ پہنچ سکا اور عمران اسماعیل صرف 25 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کر پائے جبکہ جماعت اسلامی کی اس ضمنی انتخاب میں کارکردگی مایوس کن رہی جس کے امیدوار راشد نسیم صرف 9 ہزار 56 ووٹ حاصل کر پائے جبکہ 2013ء کے عام انتخابات میں اس نشست پر جماعت اسلامی کے امیدوار کو دس ہزار ووٹ حاصل ہوئے حالانکہ دوپہر کو اس نے بائیکاٹ کردیا تھا۔
حلقہ این اے 246 میں چونکہ متحدہ کا مرکز نائن زیرو اور متحدہ کے قائدین کی اقامت گاہیں بھی موجود ہیں اس لئے اس حلقے کو متحدہ کا گڑھ اور مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے جسے جیتنا متحدہ کے مخالفین کیلئے عملاً ناممکن ہو چکا ہے اور گزشتہ 30 سال سے متحدہ ہی اس نشست پر کلین سویپ حاصل کر رہی ہے۔ اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 57 ہزار 801 ہے جن میں سے مجموعی ایک لاکھ 31 ہزار 411 ووٹروں نے ضمنی انتخاب میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ اس طرح اس حلقے میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 36.72 فیصد رہا۔ اگرچہ ضمنی انتخاب میں متحدہ کے امیدوار کو بھی عام انتخابات میں اس نشست پر حاصل ہونیوالے ایک لاکھ 40 ہزار ووٹوں سے 45 ہزار ووٹ کم پڑے ہیں جس کی بنیاد پر متحدہ کے مخالفین عام انتخابات میں منظم دھاندلی سے متعلق اپنے الزامات دہراتے نظر آرہے ہیں تاہم ضمنی انتخاب میں چونکہ انکے اپنے ووٹوں کا تناسب بھی کم رہا ہے اس لئے متحدہ کو ضمنی انتخاب میں عام انتخابات سے کم ووٹ پڑنا عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزامات کی ہرگز تصدیق نہیں بلکہ ضمنی انتخاب میں ٹرن آئوٹ سکیورٹی کے سخت انتظامات اور دوسری متعدد وجوہات کے باعث کم رہا جس کی اب متحدہ کو شکایت لاحق ہوئی ہے کہ یہ سخت اقدامات اسکے ووٹوں کا تناسب کم کرانے کیلئے ہی اٹھائے گئے تھے۔ پیپلزپارٹی سے روٹھ کر آنیوالے نبیل گبول عام انتخابات میں اس نشست پر متحدہ کے امیدوار تھے جنہیں لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل ہوئی تاہم بعدازاں انکے ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے اختلافات ہو گئے جس کے باعث انہوں نے متحدہ کو خیرباد کہہ کر اپنی قومی اسمبلی کی نشست بھی چھوڑ دی اور پھر اس حلقہ میں اپنی کامیابی کو بھی مشکوک قرار دے دیا‘ جن کے بقول خالی پولنگ بوتھوں سے انکے حق میں ایک لاکھ 40 ہزار ووٹ برآمد ہوگئے تھے۔ جب اس حلقہ کے ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو متحدہ اور اسکی قیادت مختلف آزمائشوں کی زد میں آئی ہوئی تھی۔ الطاف حسین لندن میں منی لانڈرنگ کا کیس بھگت رہے تھے اور آئے روز کے انکشافات میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل کیس بھی انکے گلے پڑتا نظر آرہا تھا جبکہ کراچی ٹارگٹڈ اپریشن کے دوران نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے دوران وہاں سے بھاری غیرملکی اسلحہ کی برآمدگی اور بعض اشتہاریوں کی گرفتاری نے جہاں متحدہ کی آزمائش کو بڑھایا‘ وہیں متحدہ کے مخالفین بالخصوص پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے حوصلے بھی بلند ہوئے اور متحدہ کیلئے آزمائشوں کی اس فضا میں انہیں متحدہ کے مدمقابل اپنے اپنے امیدوار کی کامیابی کے امکانات نظر آنے لگے۔
بادی النظر میں تو این اے 246 کا ضمنی انتخاب محض ایک حلقے کا ضمنی انتخاب تھا مگر اس انتخاب کے ناطے متحدہ کی پوری سیاست چیلنج ہوتی نظر آئی جس کی بنیاد پر بیک فٹ پر جانے کے باوجود متحدہ نے یہ نشست واپس لینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی جبکہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے متحدہ کو سخت الفاظ میں چیلنج کرتے ہوئے اس ایک نشست کے ضمنی انتخاب کی مہم کو قومی انتخابات جیسی انتخابی مہم کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی جس کا مقصد اپنے مستقبل کی آزمائشوں میں پھنسی ہوئی متحدہ کی قیادت کے حوصلے کمزور کرنا تھا جبکہ اس نشست پر کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں بالخصوص پی ٹی آئی کے عام انتخابات میں منظم دھاندلیوں کے الزامات کو بھی تقویت حاصل ہو سکتی تھی جو اس وقت جوڈیشل کمیشن میں زیر غور بھی ہیں۔ اگر شومئی قسمت اس ضمنی انتخاب کا نتیجہ پی ٹی آئی کی توقعات کے مطابق اسکے حق میں برآمد ہوتا تو یہی ثبوت لے کر پی ٹی آئی کی قیادت آج جوڈیشل کمیشن کے سامنے کھڑی ہوتی جبکہ اس نشست کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اعتماد کی بہتات کا شکار ہوئی جس کے باعث اس نے اس حلقہ میں مشترکہ امیدوار لانے کیلئے اپنی کے پی کے کی حکومتی اتحادی جماعت اسلامی کو اپنا امیدوار بٹھانے کیلئے قائل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ اگرچہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا مشترکہ امیدوار آنے کی صورت میں بھی یہ نشست متحدہ سے چھیننا بہت مشکل تھا مگر اس سے کم از کم شکست تو آبرومندانہ ہو جاتی جبکہ مشترکہ امیدوار کی صورت میں متحدہ کی مخالفت میں ووٹوں کا تناسب کچھ بڑھ بھی سکتا تھا مگر متحدہ کو آزمائشوں میں گھرا دیکھ کر پی ٹی آئی ہی نہیں‘ جماعت اسلامی کی قیادت بھی ہوا کے گھوڑے پر سوار رہی‘ نتیجتاً دونوں کو انتخابی نتائج میں متحدہ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اب پی ٹی آئی نے تو ضمنی انتخاب کے نتیجے کو قبول کرلیا ہے اور عمران اسماعیل نے اسی طرح اپنے مدمقابل ایم کیو ایم متحدہ کے جیتنے والے امیدوار کنور نوید کو مبارکباد بھی دے دی ہے جس طرح عام انتخابات میں عمران خان نے میاں نوازشریف کو مبارکباد دی تھی اور پھر لٹھ لے کر انکے پیچھے پڑ گئے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنے کے بعداب جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کو انتخابی دھاندلیوں پر مورد الزام ٹھہرانے کا ارادہ باندھی نظر آرہی ہے جس کے امیر سراج الحق نے بلاتحقیق یہ الزام دھرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی کہ ٹھپہ مافیا انتخابی عملے میں شامل تھا جس سے الیکشن کمیشن کی نااہلیت پھر ثابت ہو گئی ہے۔ اس الزام کے ذریعے کراچی کے ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی کے پلڑے میں آنیوالی خفت تو ٹالی جا سکتی ہے مگر اس الزام کو حقیقت بنا کر دکھانا عملاً ناممکن ہے اور ایم کیو ایم کے سیاسی مخالفین بھی یہ تصور نہیں کر سکتے رینجرز کی کڑی نگرانی میں ہونیوالے اس ضمنی انتخاب میں رینجرز ہی کے ہاتھوں راندۂ درگار ہونیوالی ایم کیو ایم کے حق میں دھاندلی کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہوگی۔
اگر اہل کراچی کو اس ضمنی انتخاب کا کوئی فائدہ ہوا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ عمران خان کی جانب سے متحدہ کے مرکز کو چیلنج کرنے اور وہاں اپنے انتخابی جلسوں کا اہتمام کرنے سے ایم کیو ایم کے کردار کے حوالے سے کراچی کی فضائوں پر گزشتہ تین دہائیوں سے طاری خوف و ہراس کی فضا چھٹ جائیگی اور اگلے انتخابات میں کراچی کے عوام کو اپنے مافی الضمیر کے مطابق ووٹ کا حق استعمال کرنے میں آسانی ہوگی۔ عمران خان کو اپنے لئے یہی بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے اور اب ساری توجہ جوڈیشل کمیشن میں انتخابی دھاندلیوں سے متعلق اپنے الزامات کے ٹھوس ثبوت پیش کرنے پر مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ پر ہی انکی مستقبل کی سیاست کا انحصار ہے۔ اگر جوڈیشل کمیشن کے روبرو بھی عام انتخابات میں انکے منظم دھاندلیوں کے الزامات ثابت نہ ہو سکے تو اس سے جہاں 2013ء کے انتخابات کی شفافیت پر مہر تصدیق ثبت ہوگی جس کا لامحالہ حکمران مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچے گا بلکہ اس سے عمران خان کے ماتھے پر ’’الزام خان‘‘ کا لیبل بھی مستقل طور پر سج جائیگا اس لئے اب سیاسی میدان میں آزمائش عمران خان کی شروع ہونیوالی ہے‘ انہیں اب اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ ان کیلئے آزمائش کا اگلا مرحلہ 20 کنٹونمنٹس کے بلدیاتی انتخابات کی صورت میں سامنے آچکا ہے جس سے انہیں آج گزرنا ہے۔ بہتر ہے وہ اپنی پارٹی کو ہائو ہو والے نمائشی کلچر سے نکال کر شائستگی کی سیاست کا دامن تھامیں ورنہ توتکار والی سیاست میں سوائے ایک دوسرے پر دشنام طرازی کے‘ ملک اور عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کراچی کا ضمنی انتخاب آبرومندی کے ساتھ جیتنے پر متحدہ کی قیادت بہرصورت مبارکباد کی مستحق ہے۔

مزیدخبریں