ایم کیو ایم نے بے پناہ دباﺅ کے باوجود برتری کا تناسب برقراررکھا

سلیم بخاری
سچ کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ مخالفین کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ نے نہ صرف کراچی حلقہ این اے 246 کا ضمنی انتخاب جیت لیا ہے بلکہ اپنی برتری بھی اسی تناسب سے برقرار رکھی جو اسے 2013ءکے عام انتخابات میں حاصل ہوئی تھی اور جسے ان کے مخالف دھڑوں نے دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ ان کی مخالف جماعتوں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بمشکل اپنی عزت بچا پائے۔
کراچی کا یہ ضمنی انتخاب عام نوعیت کا ہرگز نہیں تھا اور اس کے نتائج پر ملک کے سیاسی، عسکری اور تمام غیرجانبدارانہ اداروں کی نظر تھی اور ایسا بلاوجہ نہیں تھا۔ ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر بے پناہ دباﺅ تھا۔ الطاف حسین عمران فاروق قتل کیس اور منی لانڈرنگ جیسے خوفناک مقدمات میں ملوث کئے جا رہے تھے، ادھر سندھ رینجرز کی طرف سے 90 عزیز آباد پر چھاپہ وہاں سے اسلحے کی برآمدگی اور بڑی تعداد میں ورکرز کی گرفتاریاں ایسے واقعات ہیں کہ صولت مرزا کے اقبالی بیان کے بعد جس نے بظاہر ایم کیو ایم اور اس کی قیادت کے ہوش اڑا دیئے تھے، دوسری طرف پہلے پہل تحریک انصاف اور بعد میں جماعت اسلامی نے اس طرح اپنی اپنی انتخابی مہم تشکیل دی جس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کراچی کے عوام نے شاید ایم کیو ایم کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی تو اس قدر پُراعتماد تھی کہ صوبہ کے پی کے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اس نے پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کی تجویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کر لیا ہوتا تو شاید مشترکہ امیدوار بہتر کارکردگی دکھا سکتا۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کی قیادت نے احمقانہ فیصلہ کر کے ذلت و رسوائی کمائی۔ جماعت اسلامی یقیناً اس غلط فہمی کا شکار ہوئی کہ ایم کیو ایم کی ہزیمت کے بعد اسے 90ءکی دہائی سے پہلے جیسی عوامی پذیرائی مل جائے گی اور وہ کراچی کی طاقتور سیاسی قوت بننے کا دعویٰ کر سکے گی مگر بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا جس کا ذکر آئندہ سطور میں ہو گا۔
ایم کیو ایم نے یہ انتخابی معرکہ تن تنہا ہی سر کیا ہے جس کیلئے قائد تحریک کی ایک دن میں کئی کئی تقریروں، رابطہ کمیٹی کی شبانہ روز محنت نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے ورکروں نے جس بہادری سے مخالفین کا مقابلہ کیا وہ لائق تحسین ہے تاہم مقصد صرف ایم کیو ایم کی لن ترانی کرنا نہیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادتوں اور انکے ورکرز نے یقیناً نوگو ایریا کے تاثر کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور یوں انکی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ درحقیقت اگر کل کے ضمنی انتخاب سے کوئی مثبت پیشرفت اخذ کی جا سکتی ہے تو وہ خوف کی اس کیفیت کا خاتمہ ہے جس کے تحت ان علاقوں میں جلسہ کرنے کا کوئی سیاسی جماعت تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔
سندھ رینجرز، پولیس اور الیکشن کمشن کو شفاف اور غیرجانبدارانہ ضمنی انتخاب کرانے کا کریڈٹ نہ دینا بھی بہت زیادتی ہو گی۔ ان تینوں اداروں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت ٹھیک ہو تو انتخابی عمل کو تمام قباحتوں سے پاک رکھا جا سکتا ہے۔ یقیناً صوبائی حکومت کو بھی نیوٹرل رہنے کا کریڈٹ دینا چاہئے، اس کے باوجود کہ پی پی پی نے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا اور نہ ہی درپردہ کسی کی حمایت کی۔
جہاں قائد تحریک الطاف حسین نے انتخاب جیتنے پر 3 روزہ جشن کا حکم دیا ہے وہیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو صورتحال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے کیونکہ اس سے بڑا معرکہ ابھی سر کرنا ہے اور وہ ہے جلد منعقد ہونیوالے بلدیاتی انتخابات.... اس حوالے سے جلد کئی صف بندیاں سامنے آئیں گی۔ چونکہ متحدہ نے گذشتہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ان اداروں پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی تھی لہذا وہ ایک مرتبہ پھر پوری قوت سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی سعی کرے گی۔ یاد رہے کہ جب مصطفی کمال کراچی کے میئر تھے تو انہیں عالمی سطح پر بہترین میئر ہونے کا اعزاز دیا گیاتھا اور یقیناً ان کے دور میں کراچی میں عوامی مفاد کے متعدد منصوبے مکمل ہوئے تھے جس پر کراچی کے عوام انہیں آج بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی جو اس ضمنی انتخاب سے انفرادی وجوہ کے باعث الگ تھلک رہی ہیں وہ بلدیاتی انتخاب کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف بھرپور انداز سے حصہ لے گی اور اگر صورتحال انکے حق میں رہی تو پی پی پی کو سندھ میں اور مسلم لیگ ن کو پنجاب میں بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جوڈیشل کمشن بن جانے کے بعد اور کراچی شفاف انتخاب کے انعقاد سے اب کسی قسم کی دھاندلی کرنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں تاہم یہ امر یقینی ہے کہ سب ہی جماعتیں پوری تیاری سے بلدیاتی میدان میں اتریں گی اور ان کی کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے عوام تک رسائی حاصل کی جائے اور آئندہ عام انتخابات کیلئے بروقت تیاری کی جائے جن کا انعقاد سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں مستقبل قریب میں کسی بھی وقت ممکن ہو سکتا ہے یعنی یہ ان اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔
کراچی کا انتخابی بخار اترنے کے بعد اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہاں جاری آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا یا اسے کہیں بیچ میں ختم کر دیا جائے گا۔ اگر صورتحال کا غیرجانبدارانہ موازنہ کیا جائے تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈاکوں جیسی کیفیت وہ نہیں جس کا وہاں کے عوام کو ایک طویل عرصہ سے سامنا تھا۔ کرائم میں نمایاں کمی کا کریڈٹ بہرحال رینجرز اور پولیس کو ہی دینا ہو گا جنہوں نے بہت قربانیاں دیکر یہ ہدف حاصل کیا ہے اور یہ توقع کی جانی چاہئے کہ مجرموں کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہو ان سے کوئی رعایت روا نہ رکھی جائے۔ وہ مجرمان جنہوں نے انسانی جانوں سے کھلواڑ کیا ہوا ہے وہ دندناتے پھرنے کی بجائے اپنے کئے کی سزا پائیں اور دوسروں کیلئے باعث عبرت بنیں۔
سیاسی قوتوں پر واجب ہے کہ وہ جزووقتی مفاد سے بالاتر ہو کر مجرموں کی سرپرستی سے تائب ہو جائیں تاکہ کراچی کے عوام کو قومی اداروں پر اعتماد کرنے کا موقع مل جائے، نہ ہی کسی کو یہ ضرورت پیش آئے کہ وہ فوجی جرنیلوں کو مارشل لا لگانے کی ترغیب دیں یا عسکری اداروں کے پیچھے چھپ کر اپنی من مانی کرنے کی جرات کریں۔ ان سیاسی قوتوں کو اب ہڑتال جیسے حربوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے تاکہ معیشت کا پہیہ جام نہ ہو اور عوام ہر روز ایک نئے عذاب سے دوچار نہ ہوں۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ انہوں نے گذشتہ کئی ہفتوں میں کشیدگی اور دباﺅ کے باوجود کراچی، حیدر آباد اور سکھر کو بند کرنے کا عندیہ نہیں دیا جس نے صورتحال کو ابتر ہونے سے بچایا۔ کراچی امن کا گہوارہ صرف اسی صورت بن سکتا ہے جب یہاں کی سیاسی، سماجی اور تجارتی قوتیں مل کر نہ صرف خواہش کریں بلکہ اس کے لئے باقاعدہ اقدام اٹھائیں۔ کراچی اور اسکے عوام نے بہت خون خرابہ دیکھ لیا ہے، بہت سے خاندان اجڑ گئے ہیں، ترقی کا پہیہ جام ہے، یہ جمود اب ختم کرنا ہو گا، ان تمام روایتوں پر لعنت بھیجنی ہو گی جس نے عوام کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بانٹ دیا ہے۔ کراچی پاکستان کی پہچان تھا، اسے دوبارہ یہی مقام دینا ہو گا، اسے اردو اور سندھی کی تقسیم سے تحفظ دینا ہو گا، اسے دیہی اور شہری علاقے کی بندربانٹ سے بچانا ہو گا۔ کراچی کسی ایک کی جاگیر نہیں، کراچی ہم سب کا ہے اور رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن