ڈبل سواری اور شہ سواری؟

آج کچھ جملے اور کچھ واقعے سنئے۔ برادرم حسن نثار جملے لکھتا اور توفیق بٹ سیاستدانوں کے جملوں پر تبصرے میں مختصر جملہ بازی کرتا ہے تو آج یہ بازیگری کرنے کا مجھے بھی شوق چرایا ہے۔ لفظ ”چرایا“ پر غورکریں۔ حسن نثار نے کہا کہ اپنی مدح سرائی سنئے جیسے اپنی برائی سنتے ہیں۔ توفیق بٹ نے نجانے کس بات کے جواب میں لکھا کہ عمران کو جتنی ہوشیاری آتی ہے اگر چالاکی آتی ہوتی تو وہ وزیراعظم ہوتا۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ میڈیا کی نظریں بری خبروں تک محدود ہیں۔ ان کی نظریں لامحدود بھی ایسی خبروں کے لئے ہیں مگر احسن اقبال اپنے ساتھی وزیروں شذیروں کو سمجھائیں کہ وہ صرف بری خبریں پیدا کیوں کرتے ہیں۔ کوئی اچھی خبر کسی اگلے پچھلے حکمران نے کبھی پیدا ہی نہیں کی۔ کسی خبر کے برا ہونے کی حد بھی مقرر کریں۔ احسن کے بقول پاکستان 2012ءتک بڑا ملک بن جائے گا۔ بڑا اور برا میں کیا فرق ہے۔ پہلے دور میں انہوں نے کہا تھا کہ 2020ءمیں یہ ہو جائے گا۔ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ یہ احسن اقبال کو پتہ ہو گا۔ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں چلا۔ ویسے وہ ہمارے دوست ہیں بندہ ایک وقت ایک شے ہی رہ سکتا ہے۔ دوست یا وزیر شذیر؟ پھر اپنی حکومت کو طویل کرنے کی کوئی خواہش ہو گی۔ یہ تاریخ ساز فیصلے بتاتے ہیں کہ تاریخ بن رہی ہے۔ عمران کہتا ہے تاریخ بدل رہی ہے۔ نجانے دونوں میں بڑا جھوٹا کون ہے؟ بدلنے اور ہنسنے میں کیا فرق ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا بھی حال بہت برا ہے۔ قائم علی شاہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں ڈبل سواری پر پابندی مجھ سے پوچھے بغیر لگائی گئی ہے۔ وہ یہ بھی فریاد کریں کہ پھر ڈبل سواری پر پابندی مجھ سے پوچھے بغیر ہٹا لی گئی۔ وہ صرف یہ بتا دیں کہ کوئی کام ان سے پوچھ کر بھی ہوتا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اگر نائن الیون جیسا واقعہ خدانخواستہ کراچی میں ہو جائے تو آپ کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈبل سواری پر پابندی لگا دیں گے اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر لگ جائے گی۔
خبر ہے کہ عزت مآب امام کعبہ بحریہ ٹاﺅن میں نماز جمعہ پڑھائیں گے۔ پھر منصورہ میں نماز پڑھائیں گے۔ اس کے بعد بھی کسی جگہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوتے۔ مینار پاکستان کے سائے میں اور سب لوگ ایک ساتھ ان کی امامت میں نماز پڑھتے۔
اب جماعت اسلامی ایک اور معرکہ آرائی کرے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کرے۔ اس کا فائدہ ہو گا کہ حکومت جماعت کے پاس نہ رہی تو تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں رہے گی۔ وہاں بھی وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی بلکہ اڑھائی اینٹ کی مسجد بنا سکتے ہیں۔ عمران خان کو تبدیلی کا اصل پتہ چلے گا۔ مگر جو مزا پروٹوکول وغیرہ وغیرہ میں ہے وہ کہاں ہو گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت کسی خاص مقصد کے لئے بنائی ہے اور ”صدر“ زرداری ”صدر“ صوبہ سندھ ہیں۔ آپ کراچی میں ممنون حسین اور زرداری صاحب کا ٹہکا دیکھ لیں۔ کراچی میں بھی جماعت کے لئے سنا ہے۔ دروغ بر گردن راوی بلکہ دریائے راوی کہ جماعت اسلامی نے اس بار مسلم لیگ ن کے اشارے پر کئی واضح اشارے دیے ہیں۔ سراج الحق بھی الطاف حسین کے خلاف ہیں اور عمران خان بھی مگر دونوں ایک دوسرے کے خلاف کیوں تھے۔ غور کرنے کی بہت باتیں ہیں مگر قابل غور کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ہے مگر انہوں نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن نے جماعت اسلامی کے امیدوار کو اپنا امیدوار بنا لیا۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کتنے ووٹ جماعت کے تھے اور کتنے ن لیگ کے؟ کل 10 ہزار تھے۔ باقی حساب آپ کر لیں۔ جو حکومت اب خیبر پختونخواہ میں بنے گی۔ اس میں نواز شریف کا بھی عمل دخل ہو گا۔ مولانا سے بھی معاملہ ہو جائے گا۔ حضرت مولانا نے کہا کہ نواز شریف کے سعودی عرب کے اچانک دورے کو غلط رنگ نہ دیا جائے۔ یہ بیان اس بات کو غلط رنگ دینے کے لئے کافی ہے۔ یہ بات نواز شریف کے حق میں ہے یا خلاف؟ وہ یہ بتا دیں کہ راحیل شریف بھی ساتھ تھے انہیں خاص طور پر نواز شریف لے کے گئے تھے۔ مگر حضرت مولانا نے جنرل راحیل شریف کا نام ہی نہیں لیا۔ حکومت سراج الحق کی قائم رہے گی۔ اڑھائی اینٹ کی مسجد۔ عمران نے شکست تسلیم کر لی ہے مگر جماعت والوں نے نہیں کی۔ یعنی یہاں بھی اختلاف تو اب خیبر پختون خواہ سے بھی کوئی خبر آئے گی؟
لیا جائے گا تجھ سے کام ”صوبے“ کی امامت کا
مشاہد حسین کو پاک چین ایوارڈ ملا ہے۔ چودھری شجاعت نے اسے ق لیگ کے لئے قابل فخر کہا ہے۔ یہ سارے پاکستان کے لئے قابل فخر ہے۔ مشاہد حسین سب سیاسی جماعتوں میں چند پڑھے لکھے اور جینوئن اور دانشور سیاستدان ہیں۔ انہیں نواز شریف نے ضائع کر کے اپنا بڑا نقصان کیا ہے۔ یہ تو ”چودھری صاحبان کی خوش قسمتی ہے کہ مشاہد حسین نے اس لیگ کو چن لیا۔ نواز شریف کو قابل اور جرات مند آدمی اچھے نہیں لگتے۔ آج کل چودھری نثار کو اسی مشکل کا سامنا ہے۔ مگر وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ نجانے نواز شریف کس کے ساتھ ہیں۔ بہرحال ان کے جیسا کوئی آدمی ن لیگ میں نہیں ہے۔ اس کا احساس شہباز شریف کو ہے۔ ان کے بڑے بھائی مواحد حسین میرے بہت دوست ہیں۔ مجاہد حسین سے رابطہ ہے۔ ان کے والد حمید نظامی کے جگری دوست اور ڈاکٹر مجید نظامی کے بہت محترم کرنل امجد حسین کے ساتھ میری نیازمندی بہت پرانی ہے۔ ان کی اہلیہ مواحد مشاہد اور مجاہد کی والدہ بڑے کمال کی عورت تھیں۔ یہ گھرانہ پاکستان کا ایک بڑا ٹھکانہ ہے۔
برادرم آغا مشہود شورش نے ایک لطیفہ سنایا۔ اس میں کئی راز کی باتیں ہیں۔ کینیڈا سے مشہود کے بھائی مبشر نے بتایا کہ کسی آدمی کو بڑا یقین ہو گیا تھا کہ جب مجھے چھینک آتی ہے یعنی جب بھی میں نچھ مارتا ہوں مجھے کوئی نہ کوئی یاد کرتا ہے۔ ایک دفعہ اسے اتنے زور کی چھینک (نچھ) آئی کہ اس کی پینٹ اتر گئی۔ اس نے کہا کہ آج کسی نے مجھے بڑے دل سے یاد کیا ہے۔ اور یاد کرنے میں حد کر دی ہے۔ اب وہ اس دوست کی مسلسل تلاش کر رہا ہے اور نچھ بھی نہیں مارتا۔
آغا جی نے ایک خوبصورت ساتھی کا شعر بھی سنایا
دل مرحوم یاد آتا ہے
بڑی رونق لگائے رکھتے تھے
فیصل آباد کی ممتاز شاعرہ گلفام نقوی کا پنجابی شعری مجموعہ آنے والا ہے۔ اس کا نام میں اگلے کالم میں بتاﺅں گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...