آرپار مداخلت روکنے کیلئے امریکہ ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد قرار دلاکر سیل کرادے

حقانی نیٹ ورک کو کابل حملہ میں ملوث قرار دیکر اس کیخلاف ایک بار پھر پاکستان سے کارروائی کا امریکی مطالبہ
امریکہ نے کابل حملے کے بعد افغانستان کے مؤقف کی حمایت میں پاکستان پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردگروپوں کیخلاف کارروائی میں تفریق نہ کرے،حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کیخلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر آف پریس آفس الزبتھ ٹروڈو نے میڈیا بریفنگ کے دوران کابل حملے میں مبینہ طورپرحقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے پاکستان کے ساتھ مسلسل اس بات پر تشویش کا اظہارکیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دہشتگرد گروپوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ امریکہ نے کابل کے اس موقف کی بظاہر تائید کی ہے کہ افغانستان میں حملہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے حقانی نیٹ ورک نے کیا۔ ترجمان نے کہا کہ ہم مسلسل اعلیٰ سطح پر اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان افغانستان کے گروپوں جن میں حقانی نیٹ ورک شامل ہے کے بارے میں تحمل کی پالیسی رکھتا ہے۔ یہ گروپ (مبینہ طور پر) پاکستانی سرزمین سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں ایک بھارتی صحافی کے سوال کے جواب میں کہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس بات پر زور دیتے رہیں گے کہ پاکستان اپنے وعدے پورے کرے۔ دریں اثناء امریکہ کے عراق اور افغانستان میں سابق سفیر زلمے خلیل زاد نے الزام عائد کیا ہے کہ طالبان کا مسئلہ اور پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے افغانستان میں امریکی ناکامی کی بڑی وجہ بنے، حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے بدامنی کا باعث رہے ہیں۔
بھارت میں پٹھانکوٹ‘ ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسی بڑی دہشت گردی ہوتی ہے یا کسی چوکی پر کھڑے فوجی پر فائرنگ کا معمولی واقعہ پیش آتاہے تو بھارت کی طرف سے بلاسوچے سمجھے الزام پاکستان پر لگادیا جاتا ہے بعد میں خود انڈیا کے تحقیقاتی ادارے الزامات کو ثابت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس جیسے کئی سانحات کو خود بھارتی اداروں کی تحقیقات نے ڈرامہ بازی ثابت کیا جس میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی شامل تھی جس کا اعتراف ایک حاضر سروس کرنل پروہت نے کیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے بھارت میں داخل ہونیوالے کبوتر کو بھارتی اداروں نے زیرحراست رکھا‘ اسے بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کا جاسوس قرار دے کر دنیا میں خود اپنا مذاق بنوایا۔ پاکستان کیخلاف سازشیں‘ بے بنیاد الزامات اور پراپیگنڈا بھارتی سیاسی و فوجی قیادت اور میڈیا کے بڑے حصے کی پاکستان مخالف ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ کوئی واقعہ اور سانحہ پیش آنے کی دیر ہوتی ہے‘ ان لوگوں کی توپوں کا رخ بلاتاخیر اوربلا تحقیق پاکستان کی طرف ہو جاتا ہے‘ ایسا ہی رویہ افغانستان میں کسی بھی دہشت گردی اور سانحہ میں افغان حکمرانوں اور امریکی حکام کا ہے۔انہوں نے پاکستان پر الزام تراشی کو معمول بنایا ہوا ہے۔ کابل میں وزارت دفاع اور امریکی سفارتخانے کی عمارت کے قریب خفیہ ایجنسی کے دفتر نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ پرگزشتہ ہفتے خود کش حملے کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 46 افراد ہلاک اور 327 زخمی ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے قبول کی گئی،یہ گروپ پاکستان میں حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتا رہا ہے۔افغان صدر اشرف غنی نے دھماکہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ افغانستان کے دل میں کیا گیا۔ پاکستان نے بھی کابل دھماکے کی شدید مذمت کی ۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبدا للہ عبد اللہ نے کہاکہ دشمن کو گولی کا جواب گولی سے دیا جائیگا۔ افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کابل میں خود کش حملے کے بعد پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا۔وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے افغان چیف ایگزیکٹو کو دو روزہ دورے کی دعوت دی تھی عبداللہ عبداللہ کو 2،3مئی کو دورہ پاکستان پر آناتھا۔ انکی طرف سے پاکستان کیلئے یہ کہتے ہوئے خبث سامنے آیا۔’’ کابل میں ہونیوالے خود کش دھماکے کی منصوبہ بندی افغانستان کے باہر کی گئی‘‘۔ حامد کرزئی کا ہر واقعہ میں پاکستان کو ملوث کرنا وطیرہ رہا‘ اشرف غنی بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اشرف غنی نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کیا‘ وہ بھارت کے دورے پر ایسا گئے کہ بھارت کے ہو رہے اور پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کو معمول بنا لیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد ایک سال سے بھی کم وقت میں اشرف غنی نے پریس کانفرنس میں کہاکہ اسلام آباد کے ساتھ تعلقات جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے اگر پاکستانی سرزمین سے ہونیوالے حملوں میں افغانوں کا خون بہنا ہے۔وہ کہتے سنائی دیئے کہ پاکستان نے کئی سال سے افغانستان پر جنگ مسلط کررکھی ہے، اگر اسلام آباد ایسی سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہا تو وہ پاکستان سے تعلقات منقطع کرکے ’’دیگر آپشنز ‘‘ پر غور کرسکتے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ تو پہلے ہی بھارت کے نمک خوار تھے‘ وہ حکمرانی کیلئے کابل میں رہتے ہیں جبکہ اہل خانہ دہلی میں مقیم ہیں۔ کرزئی کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ڈوریاں بھارت کے ہاتھ میں ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے وہ بھی بھارت کی زبان بولتا نظر آتا ہے۔امریکہ کو بھارت اور افغانستان کی دہشت گردی میں پاکستان کا ہاتھ تو نظر آجاتا ہے جبکہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی پر اسکی آنکھیں اور کان بند ہو جاتے ہیں حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث بھارت کے ٹھوس ثبوت پاکستان اقوام متحدہ اور امریکہ کو پیش کر چکا ہے۔
افغانستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو امریکہ کی طرف سے بھی بنا بنایا اور رٹا رٹایا بیان سامنے آجاتا ہے۔ 2011ء میں کابل کو چھ دہشت گردوں نے 20 گھنٹے تک مفلوج بنائے رکھا‘ اس پر امریکہ کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا اور پاکستان پر غصہ نکالنے کی کوشش کی گئی۔
اس وقت کے امریکی وزیردفاع لیون پینٹا نے حقانی نیٹ ورک کو کابل حملے کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اسکے کیخلاف کارروائی میں ناکام ہوگیاہے اوراب امریکہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کریگا جبکہ افغانستان میں امریکی سفیر رائن سی کروکر کا کہنا تھا کہ کابل کونشانہ بنانے والے افرادنے پاکستان میں پناہ لی ہوئی ہے۔ امریکی سفیررائن سی کروکرنے بھی دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آوروں کوپاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی مددحاصل تھی۔ اسکے بعد بھی موقع بہ موقع پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کی نصیحت کی جاتی رہی۔ آج پھر امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔
پاکستان کا ہر حصہ دہشت گردی سے متاثر ہے‘ پاکستان زخمی زخمی ہوچکا ہے‘ معیشت ناتواں ہے‘ پاکستان کو یہ ’’ثمرات‘‘ امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کے ’’انعام‘‘ میں طور پر ملے ہیں۔ امریکہ ایک بار پھر پاکستان کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کے بعد اسکو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر واپس چلا گیا۔ اب پاکستان تن تنہاء دہشت گردوں سے برسرپیکار ہے۔ امریکہ کو اصولی طور پر پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تھا مگر وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے پر خاموش ہے۔ یہ خاموشی دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اوردہشت گردوں کے پشت پناہ بھارت کو ہلہ شیری دینے کے مترادف ہے۔
پاک فوج ضرب عضب اپریشن بلاامتیاز ہر شدت پسند گروپ کیخلاف جاری رکھے ہوئے ہے‘ اچھے اور برے شدت پسندوں کا تصور ہے ہی نہیں۔ امریکہ اور افغانستان پھر بھی بضد ہیں کہ کوئی گروپ پاکستان کے اندر سے افغانستان میں مداخلت کررہا ہے تواس کا ایک سہل علاج ہے: ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد قرار دے کر سیل کر دیا جائے۔ بھارت ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد قرار دینے کی راہ میں اپنے نمک خواروں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کر دیگا‘ یہ افغان نمک خوار اپنے ملک میں امن کی قیمت پر بھی بھارت کی حمایت پر کمربستہ رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کا عمل دخل کسی بھی شک و شبہ سے بالا ہے‘ کرزئی کے بعد آج کی سیاسی حکومت کی جان جس طوطے کے اندر ہے‘ وہ امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ چاہے تو ڈیورنڈ لائن کو حتمی سرحد قرار دلا سکتا ہے جس سے پاکستان کا افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ہونے کا شکوہ دور ہو جائیگا اور افغانستان اور امریکہ بھی افغانستان کے اندر ہونیوالی دہشت گردی کا الزام پاکستان کو نہیں دے سکیں گے۔ اگر امریکہ اس طرف نہیں آتا تو پاکستانی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ امریکہ کو اس خطے کے امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن