اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) لگ بھگ دو برس کے وقفہ کے بعد حقانی نیٹ ورک ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑی وجہ اختلاف بن گیا۔ کابل میں افغان انٹیلی جنس کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کے بعد افغانستان نے پاکستان کی طرف اشارے کئے جب کہ امریکی محکمہ خارجہ نے افغان الزام تراشی کی تائید کی۔ کابل میں مذکورہ حملہ افغان انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی نااہلی اور ان کے پاس تحریک مزاحمت سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کا کھلا ثبوت ہے لیکن امریکہ اور افغانستان دونوں مذکورہ صلاحیت نہ ہونے کا اعتراف کرنے کے بجائے حسب سابق پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کی پرانی الزام تراشی پر اتر آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے دوران حقانی نیٹ ورک کے شمالی وزیرستان سے ختم کئے گئے ٹھکانوں کے ثبوت امریکہ کے پاس موجود ہیں ان ثبوتوں کو کسی بھی فورم پر پیش کیا جا سکتا ہے لیکن امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی افغان حکومت کی طرف سے ٹی ٹی پی کے افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے اب بھی جا بجا موجود ہیں جن کے بارے میں سوال کرنے پر افغان حکومت اور امریکہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ کو باور کرا دیا گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے سے افغانستان کی سلامتی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کابل اور واشنگٹن دونوں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں۔