لاہور (سید شعیب الدین سے) ملک میں جاری سیاسی بحران کے پیش نظر تمام بڑی پارٹیوں نے اپنی اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کیلئے ملک کے مختلف شہروں میں سیاسی جلسوں اور احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی منظرنامے سے مکمل غائب ہے۔ دوسری طرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) جس کے سربراہ نوازشریف اور انکے بچوں پر منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، غیرقانونی سرمایہ بیرون ملک بنکوں میں رکھنے جیسے الزامات لگ رہے ہیں، وہ بھی اب سیاسی میدان میں جلسوں کیلئے نکل آئے ہیں اور آغاز وزیراعظم اپنے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے شہر مانسہرہ سے کرینگے جبکہ دوسرا بڑا جلسہ سردار مہتاب عباسی کے حلقہ ہزارہ میں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ایک ہفتہ اسلام آباد میں قیام کے بعد واپس کراچی لوٹ گئے جس دوران انہوں نے شیخ رشید سے ملاقات کے بعد وزیراعظم پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ اسکے علاوہ پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے انکا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ انکا اعلان شدہ دورہ پنجاب ابھی تک انکی فرصت کا منتظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب جو پی پی پی کا گڑھ کہلاتا تھا اور ایسی جماعت جو وفاق کی زنجیر کہلاتی تھی اب چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ چکی ہے اور کوئی ایسی قیادت نہیں جو اسے یکجا کرسکے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نوازشریف کے خلاف تحریک کا ’’فعال حصہ‘‘ بننے پر تیار نہیں کیونکہ کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوز کے حوالے سے پی پی پی کی اپنی تاریخ بھی کوئی قابل رشک نہیں۔ سوئس بنکوں میں کروڑوں ڈالر کے اکائونٹس کا معاملہ ہو یا سرے محل کی ملکیت، کوٹیکنا کیس میں، ہیرورں کے ہار کی کہانی یا سندھ کے وسائل کی اندھا دھند لوٹ مار، اسکا جواب بھی طلب کئے جانے کا شدید خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری وقت سے بہت پہلے ملک سے چلے گئے تھے۔ انکے ساتھ پارٹی کے ایسے لیڈر بھی بیرون ملک ہیں جن پر کرپشن کے خوفناک الزامات ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین جو رینجرز اور اسکے بعد نیب اور ایف آئی اے کی گرفت میں ہیں اور ایسا تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پارٹی کی قیادت کی کرپشن کے حوالے سے ثبوت دیدئیے ہیں۔ ان حلقوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیر بلوچ اور عبدالقادر پٹیل کے فراہم کردہ شواہد اور ثبوتوں سے پیپلز پارٹی قیادت پر آنیوالا برا وقت بھی زیادہ دور نہیں۔ ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ حکمران جماعت کے چند سرکردہ رہنما جنہیں نوازشریف کا قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے، پر بھی نیب اور ایف آئی اے کا ہاتھ پڑنیوالا ہے، اس حوالے سے جو نام شارٹ لسٹ کئے گئے ہیں انکی تعداد 3 درجن کے قریب ہے جن میں صوبائی وزرائ، بیوروکریسی کے حکومتی چہیتے سمیت کچھ پرائیویٹ کمپنیوں کے مالکان بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی خاموشی ’’پراسرار‘‘ قرار دی جا رہی ہے۔ پی پی پی کے باخبر ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ لندن میں قیام کے دوران نوازشریف اور زرداری کے درمیان ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن وزیر داخلہ نثار اور رحمن ملک کے ذریعے مستقبل کی سیاسی پلاننگ پر افہام و تفہیم ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی احتجاجی مہم میں پی پی کی صوبائی اور مقامی قیادت جو بلند و بانگ دعوے کرتی رہی لیکن اب منظر سے غائب ہے اور الزامات سے بھرپور بیانات کا سلسلہ بھی ہلکا کردیا ہے۔ پارٹی کے ایک لیڈر جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لندن میں ہونیوالی افہام و تفہیم میثاق جمہوریت کا تسلسل ہے۔