دنیا کا کوئی مذہب بھی ہو‘ بالخصوص دین مبین‘ یہ اپنے پیروکاروں کو راست گوئی اور راست روی کی تلقین کرتا ہے۔ ایک جھوٹ بولنے سے کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسلام تو اس جھوٹ کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جسے علامہ نے دروغ مصلحت آمیز کہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے رسالت مآب سے شراب نوشی ترک کرنے کی ترکیب پوچھی تو حضور نے فرمایا۔ جھوٹ نہ بولا کرو۔ وعدہ کر کے جب وہ گھر پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ مے نوشی کو چھپانے کے لئے قدم قدم پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اسے شغل شب ترک کرنے میں ہی عافیت نظر آئی۔
پاکستان چونکہ حاصل ہی اسلام کے نام پر ہوا تھا اس لئے ہر مسلمان کا دُہرا فرض بنتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرے۔ بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا۔ منافقت‘ کذب بیانی اور ریاکاری‘ ہماری سیاست‘ معاشرت اور ثقافت کا سکہ رائج الوقت ہیں۔ بیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں کتنے لوگ سچ بولتے ہیں۔ خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ یہ جاننے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق صدر ایوب خان اپنی کتاب ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ میں لکھتے ہیں ”میں نے اپنے جج دوست سے پوچھا۔ تمہارا دن کس طرح گزرتا ہے؟“ بولا ”سب صبح سے لیکر شام تک جھوٹ سنتا ہوں۔ جھوٹی شہادتیں قلمبند کرتا ہوں اور پھر اس خس و خاشاک کے ڈھیر سے سچ کے دانے تلاش کرتا ہوں۔ تقسیم سے قبل تعزیرات ہند میں ”بیان نزع“ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اسے اعلیٰ درجہ کی شہادت تسلیم کیا جاتا تھا کیونکہ اسکی اساس اس LEGAL DICTUM پر رکھی گئی تھی۔
TRUTH SITS ON The LIPS OF A DYING MAN. THE THOUGT OF THE HERE AFTER, TO MEET THE CREATOR. THE CONSCIOUSNESS OF THE IMPENDING DOOM, WILL IMPEL THE MAN TO SPEAK NOTHING BUT THE TRUTH.
دم واپسیں سچ آدمی کے ہونٹوں پر سوار ہوتا ہے۔ اس حیات مستعار کو چھوڑنے کا احساس اور خالق حقیقی کے حضور پیشی کا خوف انسان سے سچ ہی بلواتا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وقت آخر آن پہنچا ہے۔ مقتول انتقاماً یا رشتہ داروں کی انگیخت پر قاتل کے سارے خاندان کو جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وجہ سے اب بیان نزع کو وہ شہادتی اہمیت حاصل نہیں رہی۔
مغربی معاشروں میں تو جھوٹ بولنا ایک مسلمہ برائی ہے۔ صدر نکسن جیسا مدبر‘ مفکر اور منفرد حکمران محض ایک جھوٹ بولنے کی وجہ سے امریکی صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس تناظر میں جب صدر ضیاءالحق نے آئین میں دفعہ 62-63 کا اضافہ کیا تو عمومی طور پر اسے سراہا گیا۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسنا شروع ہو گئے۔ اس شور اور ہا¶ ہو میں ایک بنیادی حقیقت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ہر عمل ‘ قانون یا اقدام جس کی بنیاد بدنیتی پر رکھی جائے AB-INITIOVOID ہوتا ہے۔ کیا ضیاءالحق واقعی نفاذ اسلام چاہتا تھا؟ کیا واقعی وہ جھوٹ‘ رشوت اور خیانت سے متنفر تھا؟ یا اسکی آڑ میں وہ اپنے مخالفین اور ناپسندیدہ افراد کو راہ سے ہٹانا چاہتا تھا۔ اس نے 62,63 کی تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی جسکے خوف نے مخالفین کے لب سی رکھے تھے۔ چارسو چپ کا روزہ تھا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جس سے مرغِ قبلہ نما تک بھی اپنے آشیانے میں صرف کانپتا ہی نہیں بلکہ ہانپتا بھی تھا۔ مصطفےٰ زیدی کو جب یحییٰ خان نے کرپشن کے الزام میں نوکری سے نکالا تو اس نے احتجاجاً ایک ہجو لکھی جسکے یہ شعر زبانِ زدِ خاص و عام ہوئے۔
حدیث ہے کہ اصولاً گنہگار نہ ہوں
گنہگار پہ پتھر سنبھالنے والے
خود اپنی آنکھوں کے شہتیر پر نظر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
ذراتصورکریں! ضیاءالحق کونسا صادق اور امین تھا۔ اس نے بلاوجہ وہ آئین توڑا جسکے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا تھا۔ اگر 62-63 کا واقعی نفاذ مقصود تھا تو اس کی زد میں مرحوم خود آتے تھے اور اس کا اطلاق بھی اُن پر ہونا چاہیے تھا۔ کیا ان کا ایک معتمد جس نے اربوں روپے سمیٹے تھے اور اسکے ساتھ ہی حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ اسکی نظروں سے اوجھل تھا؟ اس شخص کی اولاد کے پاکستان میں چارسو کارخانے پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر سب مثالیں اکٹھی کی جائیں تو کالم کتاب کی شکل اختیار کر جائیگا۔ 62-63 میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ خرابی اس نیت میں تھی جس میں حکمرانی کو طوالت دینے کا فتور آچکا تھا۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ مجلسِ قانون ساز کا کوئی ایسا ممبر نہیں ہے جو اس کی زد میں نہ آتا ہو۔ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاید ایک شخص بھی اس کی گرفت میں نہ آسکے۔
بڑے میاں(جنرل ضیا) تو تھے ہی چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ نکلے۔ پرویز مشرف نے ناپسندیدہ ممبران کو اسمبلی سے باہر رکھنے کےلئے گریجوایشن کی شرط رکھ دی۔ بدقسمتی سے جتنے بھی آمر آئے انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کےلئے عمارت نوساخت کی۔ ایوب خان نے ایک جمہوری آئین کو توڑ کر ایسا آئین دیا جس کی رو سے الیکشن میں اس کی کامیابی یقینی تھی۔ ضیاءالحق 58-2B کے علاوہ 62-63 لے آیا۔ مشرف کو بتایا گیا چونکہ اس کا ”آگا پیچھا“ نہیں ہے اس لئے اپنا حلقہ قائم کر نے کیلئے موجودہ نظام کا تیاپانچہ کر دے۔ بی اے کی شرط اس لئے رکھی گئی کہ پرانے سیاسی گھاگ ”ویڈ آﺅٹ“ ہو جائینگے اور مرغان نوآموز کو قابو کرنا آسان ہو گا۔ ساتھ ہی ڈیڑھ سو سالہ ڈپٹی کمشنری نظام کو ختم کر کے ایک ایسا چوں چوں کا مربہ تیار کیا جائے جس میں ضلع ناظم سب عمل و علم کا مالک و مختار ہو۔ سب فنڈ اس کی صوابدید پر خرچ ہوں۔ سرکاری ملازموں کو اگر سانس بھی لینی ہو تو اس سے پوچھ کر لیں۔ اس طرح ایسی متشکر ضلعی حکومتیں قائم ہونگی جو مشرف کی وفاداری کا دم بھریں گی۔ اسکی لاعلمی کا یہ عالم تھا کہ آخر وقت تک سمجھتا رہا کہ تھانیدار S.P کے نہیں بلکہ مجسٹریٹ کے ماتحت ہوتا ہے۔ ایک دن بڑی معصومیت سے پوچھا ”یہ مجسٹریٹ تھانیدار کو رشوت لینے سے روکتا کیوں نہیں ہے“۔ محکمہ پولیس کے افضل شگری، ذوالفقار قریشی اور جنرل نقوی کی صورت میں جو اتحاد ثلاثہ قائم ہوا اس نے آخر وقت تک مشرف کی سوچ کو مفلوج کئے رکھا۔ ممبر اسمبلی کےلئے گریجوایٹ ہونے کی شرط بڑی مضحکہ خیز تھی۔ یہ لوگ اس وقت سے ممبران اسمبلی چلے آرہے تھے جب آرمی میں جانے کےلئے F.A پاس کی شرط رکھی گئی تھی۔ ان کا تجربہ، علم اور سوچ یقیناً آجکل کے اس گریجوایٹ سے زیادہ پختہ تھی جو ایک درخواست بھی صحیح طرح سے نہیں لکھ سکتا۔ کل کلاں یہ M.A یا PHD کی شرط رکھ دیتا تو پھر کیا ہوتا؟ اِس قسم کی شرط شاید ہی کہیں ہو۔
بہت عرصہ پہلے کرشن چندر نے ایک گریجوایٹ گدھے کا ذکر کیا جو اپنے مالک (مرحوم) دھوبی کی بیوہ کی درخواست لیکر وزیراعظم کے پاس جاتا ہے۔ اس اثنا میں وہ ایک گدھی کو دل دے بیٹھتا ہے۔ رشتہ کےلئے جب وہ اس کی ماں سے بات کرتا ہے تو وہ اس کی ذات پوچھتی ہے۔ بولا، میں ذات پات کا قائل نہیں لیکن میں ایک گریجوایٹ گدھا ہوں۔ اس پر وہ تشویشناک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہتی ہے ”یہ تو اور بھی بری بات ہے۔ ہندوستان میں جتنے پڑھے لکھے گدھے ہیں وہ سب کلرکی کرتے ہیں۔