الحمدللہ جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری ہو چکا اور وہ اسلامی عسکری اتحاد کے تشکیلی مرحلہ میں پاکستانی وژن و کردار پیش کرنے کے لئے ریاض میں ہیں۔ اسلامی عسکری اتحاد کا ’’تصور‘‘ کہاں سے آیا‘ کیوں آیا اور کس نے اسے پیش کیا اور کس نے اس کی حوصلہ افزائی کی؟ آج یہ باتیں قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ جنوری 2003ء میں ریاض میں کراؤن پرنس (جو شاہ فہد کی طویل علالت کے باعث مکمل شاہ کے فرائض ادا کر رہے تھے) عبداللہ بن عبدالعزیز نے دنیا بھر سے کچھ سکالرز‘ دانشوروں اور اہل قلم کو مدعو کیا تھا 9/11 کا واقعہ ہو چکا تھا اور صدام حسین ایک بڑا مسئلہ امریکہ و برطانیہ کی طرف سے پیش ہو چکا تھا۔ 15 دن یہ سکالرز‘ دانشور‘ اہل قلم شاہ عبداللہ کے مہمان رہے۔ سیمینارز میں تقاریر ہوئیں‘ شاہ عبداللہ نے متعدد بار مہمانان سکالرز‘ دانشوروں اور اہل قلم کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور کھانے ساتھ کھائے۔ پاکستان سے ڈاکٹر محمود احمد غازی اور عبدالغفار عزیز کو سعودی سفارت خانے کی طرف سے جنادریہ فیسٹیول میں شرکت اور اس سیمینار میں مدعو کرنے کی سفارش ریاض بھیجی گئی تھی مگر میرا نام ریاض میں موجود ایک سعودی سکالرز نے دیا جو موجودہ شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کے حلقہ احباب میں تھے۔ ان دنوں گورنر ریاض شہزادہ سلمان (جو موجودہ شاہ ہیں) کے بیٹے بندر بن سلمان شاہ عبداللہ کے مشیر خاص تھے۔ یوں میں بھی اس قافلہ علم و دانش و قلم و قرطاس کا ایک حصہ بن گیا۔ میں نے شہزادہ عبداللہ کی شخصیت‘ طریق کار‘ سعودی معاشرے اور جذبہ جہاد کے مثبت پہلو کے مظاہرے بھی شاہ عبداللہ کی موجودگی میں خود محسوس کئے۔ مجھے شہزادہ بندر بن سلمان نے خصوصی طور پر اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا جن کو میری روانگی کی اطلاع اس سعودی سکالر نے دے دی تھی جنہوں نے میرا نام تجویز کیا تھا۔ واپس آ کر میں نے طویل غور و فکر کیا تو صدام حسین کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال میں مجھے یہ ’’فکر‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’وجدانی‘‘ طور پر عطا ہوئی کہ موجودہ ابتلا عہد میں مسلمانوں کی اپنی اسلامی فوج ہونی چاہئے۔ جس میں اکثر مسلمان قابل ذکر ممالک کے فوجی اور رجال عسکری دانش شریک ہوں اور جہاں جہاں اسلامی ممالک میں عدم استحکام ہو بطور خاص جہاں عوامی جذبات (بیرونی سازشوں کے ذریعے‘ ریاست و معاشرہ و حکمرانی کے لئے) سرکش بن جائیں تو غیر مسلم فوج کی بجائے ان عرب سرزمینوں پر اسلامی‘ عسکری اتحاد کی فوج داخل ہو کر استحکام لائے۔ اگر عدم استحکام و بغاوت و سرکشی بیرونی سازش یا اندرونی خلفشار کے سبب عربی ہو تو اس سرزمین پر ترکی‘ انڈونیشیا‘ پاکستان‘ ملائشیا جیسے غیر عربی یعنی عجمی اسلامی ملک کا جنرل قائدانہ فرض ادا کرے۔
اگر ان چار ممالک میں خلفشار و عدم استحکام ہو تو کوئی دوسرا ملک اپنا عسکری وجود پیش کرے یہ کوئی عرب بھی ہو سکتا ہے۔ یا عرب دانش بھی ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب اپنی دانش کے ذریعے پاکستان کو لاحق عدم استحکام کے حل میں نہایت فعال کردار ادا کر چکا ہے جس ریاست کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
میں نے اس ’’تصور‘‘ پر جب اپنا غور و فکر مکمل کیا تو کالم کی صورت لکھ کر جناب مجید نظامی صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا جسے انہوں نے نہایت محبت و شفقت سے ادارتی صفحے پر نمایاں طور پر شائع کیا تھا۔ بعدازاں گاہے گاہے میں اس ’’تصور‘‘ کو لکھ کر اس ’’ضرورت‘‘ کی طرف متوجہ کرتا رہا۔ یوں اسلام‘ عسکری اتحاد کا تصور مجھ کمزور سے پاکستانی کو ریاض میں پندرہ دن قیام‘ دنیا بھر سے آئے ہوئے سکالرز‘ دانشوروں‘ اہل قلم و قرطاس سے میں جدل اور گفتگو کے نتیجے میں حاصل ہوا اور یہ تصور میرا اپنا تھا کسی بھی دوسری شخصیت نے اپنی گفتگو میں اس طرف اشارہ نہیں دیا تھا۔ میرا یہ تصور میرے کالموں میں پاکستانی و سعودی و عرب عسکری ضرورت اور اتحاد و مفاہمت کے نام سے بار بار پیش ہوا ہے۔ لہٰذا یہ ’’تصور‘‘ بنیادی طور پر نہ سعودی ہے نہ عربی ہے بلکہ یہ مکمل طور پر پاکستانی ہے۔ تخلیق تصور کرنے والا مجھ جیسا کمزور پاکستانی اور اس تصور کو قبول اور اشاعت سے فروغ دینے والا دلیر مجید نظامی صاحب اس ’’تصور‘‘ کو شاہ سلمان کے نوجوان و متحرک و دلیر بیٹے محمد بن سلمان نے جب قبول کیا تو ان کی نظریں ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پیشہ ورانہ شخصیت پر مرکوز ہو گئیں یوں ان دونوں کا باہمی رابطہ جوں جوں بڑھتا گیا۔ اسلامی عسکری اتحاد کو حقیقی وجود دینے کی بات چیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہماری حکومت نے بھی اس پیشرفت پر اپنا کچھ حصہ ڈالا۔ یمن کے حوالے سے اگرچہ پارلیمنٹ کا کردار سعودیہ مخالف تھا مگر بعدازاں یہ منفی کردار دب گیا کیونکہ سعودی تدبر و فراست نے مزید احتیاط اپنائی اور اس متوقع اتحاد کے خلاف ایک اسلامی ملک جو پاکستان کا پڑوسی ہے کی پیدا کردہ مخالفانہ فضا کی تلخ حقیقت کو بھانپ لیا‘ اور خاموشی سے کام جاری رکھا مگر منفی پروپیگنڈے کا جواب خود نہ دیا۔ الحمدللہ یہ فرض اس خاکسار نے کسی بھی طرف سے اشارے کے بغیر مکمل کیا۔ اس ’’تصور‘‘ تشکیلی مرحلے میںہے۔
پاکستان میں نیا سعودی سفیر شاید اب عسکری امور کے کسی ماہر کو بنائے جانے کا امکان زیادہ عملی صورت اختیار کر جائے گا۔ اسلامی عسکری اتحاد کا تشکیلی مرحلہ‘‘ مکمل ہوتے ہی اس کے لئے تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو گا انشاء اللہ توقع ہے کہ یہ اجلاس مئی کے آخر یا جون کے وسط میں ہو جائے گا تب تک جنرل راحیل شریف کی ذات گرامی خود سعودیہ کے خلاف بھی اور اس متوقع اسلامی عسکری اتحاد کو بار بار فرقہ وارانہ اتحاد (سنی عسکری اتحاد) کہہ کر بدنام کیا جاتا رہے گا۔ ۔میں نے ایک دفعہ سعودی سفیر جناب عبداللہ بن مرزوق زہرانی سے پوچھا کہ سعودیہ پاکستان میں سعودیہ مخالف پروپیگنڈے کا آگے بڑھ کر سدباب کیوں نہیں کرتا؟ ان کا جواب تھا سعودی فیصلہ سازی کو پاکستانی عوام کی میسر محبت و ریاست پاکستانی کی دائمی رفاقت پر مکمل اعتماد ہے لہٰذا ایسے مخلص دوست ملک میں سعودیہ کو اپنے خلاف پیدا شدہ فضا اور نسلی پروپیگنڈے کا جواب دینے کی خواہش و ضرورت نہیں ہے کہ پاکستانی عوام ریاست اور سعودیہ ایک ہی منزل کے راہی اور ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں۔