واقعہ شب معراج‘ سائنسی عروج ورطہ حیرت میں

قارئین کرام آج سمجھ نہیں آرہی میرے ناچیز و لاچار قلم کو بندگی کے کس جنون نے‘ عشق محمدؐ کی کس انتہا نے یہ جرات بخش دی ہے کہ وہ شب معراج کے امر واقعہ کا لفظ لکھ سکے؟ کہاں ہم کائنات بھر کی مٹی بھر مٹھیاں کہ حضورؐ پاک کے نعلین مبارک کی خاک کے درجے تک نہ پہنچ سکیں اور کہاں جسد مبارک سمیت عرش معلیٰ تک رسائی کا محیر العقول امر واقعہ ۔۔ ایسا واقعہ کہ جو دیدار رب کے حوالے سے انسان اور انسانیت کی انتہائے معراج ہے‘ جس پر زمین و آسمان سے لے کر عروج فکر انسان تک سب ورطہ حیرت میں ہیں ہاں سوائے اس فخر‘ اس مان اور اس انتہائے خوشی و خوش قسمتی کے جس نے مجھے یہ جرات اور طاقت بخشی ہے کہ وہ کائنات بھر پر محیط ہستی‘ وہ قران ناطق‘ وہ خلق اکمل‘ وہ انسانیت کو جہالت و وحشت کے اندھیروں سے باہر نکال لینے والے پیارے نبیؐ ہمارے ہیں‘ میرے وہ خیر البشر‘ رہبر انسان و انسانیت جن کی خاک پا کو ہم اپنی بصیرت و بصارت کیلئے سرمہ بنا لینے کی بھی جرات نہیں رکھتے جب وہ دیدار رب کیلئے فرش سے عرش معلیٰ پر تشریف لے گئے تو حجر اوندھے ہو گئے‘ شجر سرنگوں اور بت خانوں میں بت گر گئے‘ کائنات کی ہر چیز سجدہ ریز‘ ہر شے سرنگوں‘ خاک کا ہر ذرہ سر بہ خاک تھا‘ زمین و آسمان درود و سلام سے گونج رہے تھے اور کسی شمار قطار‘ کسی حدو حساب میں نہ آنے والے فرشتے سر جھکائے کھڑے تھے مخصوص بلندی پر پہنچنے کے بعد جبرائیل کے پر جلنے لگے تو عرض گزار ہوئے آگے تنہا تشریف لے جائیے کہ حضورؐ ایسے انسان کامل و مشرف کے سامنے فرشتوں کو تحرک کی مجال نہیں ہے اور پھر قربان جائیے حضورؐ پرنور کی اپنی امت کیلئے شفقت و محبت پر کہ زمان و مکان کے درمیان معلق ہو جانے والے وصال کے ان نازک لمحات میں بھی وہ اپنی امت کو نہ بھولے‘ اس کیلئے نمازوں کا تحفہ لیتے آئے‘ ان کی بخشش کی التجا کرتے رہے‘ اس کے گناہوں اسکی خطاؤں‘ اسکی برائیوں اور نادانیوں کو اپنی کالی کملی سے ڈھانپ لینے کی اجازت طلب فرماتے رہے‘ وعدہ لیتے رہے غرضیکہ ان کی عظمت و شرف کے بارے میں کیا کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ
مجھ کو جرات نہیں ہے مدحت کی
بخش دیجئے جو بھول ہو جائے
قارئین کرام آخر میں کہنا یہ ہے بلکہ درخواست ہے کہ خدارا اس عرش نشین کے نقش پا پر آنکھیں رکھ دیں ان کے ارشادات و فرامین پر مر مٹیے کہ صرف اور صرف اسی میں ہماری نجات ہے اسی میں ہماری آخرت کی حتمی سنوار ہے اس سے شک نہیں کہ سائنس کا بیٹا آج سائنسی ارتقاء کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے‘ خاک کی یہ چٹکی زمین کی خاک میں اٹھ کر چاند کی زمین پر سے چٹکی بھر خاک بھی اٹھا لائی ہے لیکن یاد رکھئے انسان اور انسانیت کی بقا صرف روحانی و مذہبی اقدار کے احیا میں ہے سائنس کی ہرجیت روحانیت کے مقابلے میں ایک شکست ہے۔ سائنس کو محض خون خراب کے ذریعے انسان و انسانیت کو نابود کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ اسکے برعکس روحانیت اور مذہب پر ایمان و عمل بقائے انسانیت کی ضمانت ہے۔ مختصراً یہ کہ سائنس ایک کارنامہ ہے‘ روحانیت کرامت ہے‘ سائنس متاثر کرتا ہے‘ روحانیت معجزے کرنے پر قادر ہے‘ سائنس نے ٹیلی فون ایجاد کیا ہے جو جام ہو سکتا ہے کمپیوٹر ایجاد کیا جس میں وائرس آسکتا ہے۔ جبکہ ہمارے اولیائے کرام ہمارے انبیائ‘ ہمارے پیغمبر اپنے سے ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے معتقدین سے کھری ٹیلی پیتھی کے ذریعے روحانی طور پر کلام کرنے پر قادر تھے اس کے مقابلے میں کہاں آچکا روحانی طور پر خالی اور اخلاقی اعتبار سے زوال پذیر خاکی انسان جو اپنی حاصل کردہ تمام تر مادی ترقی کے باوجود ایسے روحانی ارتقا کا تصور تک نہیں کر سکتا بلکہ ابھی تک فطرت کے کئی سربستہ رازوں کا سرا تک نہیں پکڑ سکا انکے ساتھ صرف سر ٹکرا رہا ہے جہاں تک ہمارے پاک مذہب اسلام اور دونوں کائناتوں کی عظیم ترین ہستی کی بات ہے تو یہ صرف آج کی بات نہیں ہے شب معراج تک کا پاک سفر پلک جھپکتے میں طے کر ڈالنے والی ہستی کے حوالے سے صدیوں پہلے سے لے کر لمحہ موجود تک دنیا میں کوئی ذی نفس ایسا موجود نہیں ہے جس کے جواز و دلیل اور منطق نے یہ ہار نہ مان لی ہو‘ یہ تسلیم نہ کر لیا ہو کہ صرف ہمارے نبیؐ پاک‘ ہمارے ختم المرسلین ہی تمام تر مغربی یونیورسٹیوں‘ درسگاہوں بلکہ کائنات بھر کی عظیم ترین ہستی ہیں۔ آئیے قارئین فخر کائنات کے عطا کردہ اپنے لئے اس فخر سے ہم فیضاب ہوں انکے اخلاق حسنہ سے لمحہ بھر کیلئے سرتابی نہ کریں اپنے پاک مذہب کی تعلیمات کو حرزجاں بنا لیں۔ کہ مذہب کے آسرے کے بغیر ہم خلاؤں میں معلق ہیں۔
دعا کرنی چاہئے کہ…؎
یہ تمنا قبول ہو جائے
دل مقام رسولؐ ہو جائے
دل ہو پائے حضورؐ پر قرباں
جاں فدائے رسولؐ ہو جائے

ای پیپر دی نیشن