اسلام آباد (نوائے وقت نیوز)معاشرے میں انتہا پسندانہ مواد کی ترسیل روکنے کے لئے میڈیا کے بارے میں ضابطے وضع کئے جائیں ،بالخصوص حالات حاضرہ و تفریحی پروگراموں ، سوشل میڈیا اور مذہبی جرائد کی نگرانی کی جائے ۔یہ نکات یہاں پر انسداد شدت پسندی میں میڈیا کے کردار پر ایک ورکنگ گروپ میں سامنے آئی جس کا اہتمام پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز نے کیا تھا۔مقررین میں سینئر صحافی ایم ضیا ء الدین ، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک ، غازی صلاح الدین ، ڈاکٹر قبلہ ایاز ، ڈاکٹڑ فیض اللہ جان ، وسعت اللہ خان ، خورشید ندیم ،سلیم شاہد، سحر بلوچ ، شمائلہ خان ، خرم مہران ، شاہد محمود ، عون ساہی ، اعزاز سید ،اختر بلوچ، سبوخ سید اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے خطاب کیا ۔ مقررین نے کہا کہ معاشرہ میڈیا کے اثرات کی زد میں ہے اس لئے میڈیا کو شدت پسندی کی حساسیت کے بارے میں آگاہی دی جائے ۔پیمرا کے قوانین کے تحت ہر چینل اپنے مواد کا دس فیصد وقت مفاد عامہ کو دینے کا پابند ہے اس وقت کو انتہا پسندی کے خلاف استعمال کیا جائے ۔حالات ِ حاضرہ کے پروگراموں کو شدت پسندی کو ہوا دینے کے لئے نہیں بلکہ اس کے تدارک کے لئے متحرک کیا جائے ۔ تفریحی پروگراموں کے مکالموں کی بھی سکریننگ کی جائے کہ کہیں وہ اس بیانئے کو تو فروغ نہیں دے رہے جو شدت پسندی کے پھیلاؤ کا سبب ہے مقررین نے تجویز دی کہ میڈیا اور معاشرے کے رائے ساز افراد کا باہم مکالمہ انتہائی ضروری ہے ۔انٹرنیٹ پر نفرت انگیز مواد کی ترسیل روکنے کے لئے پہلے سے موجود ظابطوں کو مؤثر بناتے ہوئے اسے شدت پسندی کے خلاف استعمال کیا جائے ۔اخبارات ، جرائد اور بالخصوص مذہبی جرائد میں شائع ہونے والے مضامین پر خاص نظر رکھی جائے اور اس سلسلے میں پریس اینڈ پبلیکیشنز کے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا جائے ۔