وطنِ عزیزمیں ان دنوں اظہارِ رائے کی بے پناہ آزادی نے پریشان کردیا ہے۔ سنسرشپ کے دور میں لکھنا سیکھا تھا۔ کئی برس تک اشاروں کنایوں میں اپنی بات سمجھانے کی مشقت کے بعد حالات ایسے ہوگئے کہ صیاد سے مانوس ہوگیا۔ خوف آتا ہے کہ ”اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے“۔
کئی برس قبل لکھنے پڑھنے کی طرف طبیعت نے رُخ کیا تو شدید خواہش تھی کہ صرف ڈرامے لکھوں۔ اس خواہش کا اظہار کچھ بزرگوں سے کیا تو انہوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ڈرامہ درحقیقت نظریات کے درمیان ٹکراﺅ کو شدت سے بیان کرنے والی صنف ہے۔ مرکزی کردار اس کے نیکی اور بدی کی علامتیں ہوا کرتے ہیں۔ ہم راہِ راست پر چلنے والی قوم ہیں۔ بدی کے ذکر کو بُرا سمجھتے ہیں۔ بدی دکھائے بغیر مگر نیکی کو اُجاگر نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر یہی ہے کہ ڈرامے کے بجائے کسی اور صنف کی طرف توجہ دی جائے۔
جوانی کا مگر اپنا خمار ہوتا ہے۔ خوش قسمتی یہ بھی رہی کہ جو پہلاڈرامہ PTVکے لئے لکھا اسے جشن تمثیل میں شامل کردیا گیا۔ پورے ملک سے صرف پانچ ڈرامے اس جشن کے لئے چنے گئے تھے۔ نشر ہونے کے بعد انگریزی اخبارات میں اس کا ذکر بھی بہت اچھے الفاظ میں ہوا۔ محمد علی صدیقی صاحب ان دنوں Dawn کے لئے ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں پر تبصرے لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے میرے ڈرامے کا ذکر کرتے ہوئے Beckett کا ذکر بھی کردیا۔ خدا گواہ ہے مجھے اس وقت تک ہرگز خبر نہیں تھی کہ یہ کون صاحب ہیں۔ تھوڑی کاوش کے بعد پتہ لگاکہ آئرلینڈ میں پیدا ہوا یہ ڈرامہ نگار صرف فرانسیسی زبان میں لکھتا ہے۔ اس کا Waiting for Godot ایک شاہکار شمار ہوتا ہے اور اس نے محض ڈرامے نہیں لکھے۔ ان کے ذریعے جدید ادب کی ایک تحریک کو جنم دیا ہے۔ Absurd Theatre جو دو عالمی جنگوں کے بعد انسانوں کی روحوں پر مسلط ہوئی مایوسی اور بے بسی کا اظہار ہے۔ صدیقی صاحب جیسے جید ناقد کی بدولت خود میں Beckett جیسی صلاحیت دریافت کرنے میں مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پھرے ہے اِتراتا والا معاملہ ہوگیا۔
بہت زعم اور ڈھٹائی سے ایک سیریزکا آئیڈیا لکھ ڈالا۔ اس سیریز کے ذریعے 1970کی دہائی میں جوان ہوتے نوجوانوں کی سوچ اور مسائل کو ہر ہفتے 25منٹ کے ایک ڈرامے کے ذریعے بیان کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آئیڈیا منظور ہوگیا۔ مرحوم اسلم اظہر نے جو PTV کے مہاگرو مانے جاتے تھے اس سیریل سے بہت توقعات باندھ لیں۔
اس سیریل کے شروع ہوتے ہی لیکن اسلم صاحب PTVسے ہٹادئیے گئے۔ ان کی جگہ کوئی اور MDآگیا۔ میرا مگر کام چلتارہا۔ 1977کا آغاز ہوگیا۔ وہ سال شروع ہوتے ہی افواہ پھیلی کہ اپنی مقبولیت پر بہت ہی اعتماد کرتے ہوئے بھٹو صاحب اس سال کے مارچ میں نئے انتخابات کرواناچاہتے ہیں۔
سیاست کی ان دنوں مجھے خاص سمجھ نہیں تھی۔PTVمیں مگر چرچا اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات مسعود نبی نور کے ایک ”خفیہ مراسلے“ کا تھا۔ اس مراسلے کے ذریعے ملے احکامات عندیہ دے رہے تھے کہ بھٹو حکومت نئے انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔
بہرحال اس ”خفیہ مراسلے“ کو ان تمام لوگوں کے لئے پڑھنا ضروری تھا جو باقاعدگی سے PTVکے لئے لکھا کرتے تھے۔ مجھے بھی راولپنڈی/اسلام آباد مرکز کے سیکرپٹ ایڈیٹر منصور صاحب نے یہ مراسلہ دکھاکر غور سے پڑھنے اور اس کی ہر صورت تعمیل کا حکم دیا۔
سیکرٹری اطلاعات کے مذکورہ مراسلے کا آغاز اس گِلے سے ہوا کہ PTVکے ڈراموں میں بہت اداس کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ صحت مند ادب کا تقاضہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کے دلوں میں موجزن امید کے دیے جلائے رکھیں۔ انہیں زندگی کو مسکراتے ہوئے گزارنے کی راہ پر لگائیں۔ اس ”ہدایت نامے“ کا بیشتر حصہ دفتری انگریزی کے جناتی استعمال کی وجہ سے مجھے سمجھ ہی نہ آیا۔ حکم تھا۔ پڑھ لیا۔ مجبوری تھی۔
اس مراسلے کے چند ہی روز بعد مگر میں نے ایک ڈرامہ لکھا۔ یہ ڈرامہ نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ کی بابت تھا جو ”تجرباتی کھیل“ تیار کرتے ہیں۔ اس گروپ کا لیڈر بہت جذباتی اور باغیانہ تھا۔ وہ ایک ڈرامہ لکھتا ہے۔ اس میں ہیروئین کا کردار نوین تاجک نے کیا جو اشفاق احمد کے ایک ڈرامے کی وجہ سے ان دنوں بہت بڑی سٹار بن گئی تھی۔ یہ ڈرامہ ہِٹ ہوجاتا ہے تو نوین تاجک کو ”کمرشل “ڈراموں والے اچک لیتے ہیں۔ وہ سٹار بن جاتی ہے مگر چند ہی روز بعد زوال کا شکار۔
”کمرشل“ دنیا میں ناکام ہونے کے بعد نوین جب اس گروپ میں واپس آنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا لیڈرتلملاجاتا ہے۔ بہت غصے سے اسے کہتا ہے کہ ”تم چاہ رہی ہو کہ میں تمہیں ایک نیا ریپرپہناکر لوگوں میں ایک بار پھر مقبول بنادوں“۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ ڈرامہ آن ائر ہوا تو میری شامت آگئی۔ حکومت کے لئے ٹی وی ڈراموں کو Monitorکرنے والوں نے رپورٹ یہ لکھی کہ اس ڈرامے کے ذریعے درحقیقت میں نے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بھٹو صاحب ایک نئے روپ کے ساتھ لوگوں کے سامنے آکر انہیں بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایمان داری کی بات مگر یہ ہے کہ مذکورہ ڈرامہ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں ہرگز ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ بس ایک کہانی تھی جسے بیان کردیا۔ یہ کہانی مگر علامتی ٹھہراکر ”تخریبی“ ہوگئی۔ میں وضاحتیں دیتا رہا۔ بہت وضاحتوں کے بعد جاں خلاصی ہوئی۔ مجھے لیکن بزرگوں کی وہ نصیحت یاد آگئی کہ ڈرامہ نظریات میں ٹکراﺅ کو شدت سے بیان کرنے والی صنف ہے۔ بدی کو دکھائے بغیر نیکی کو اجاگر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ بدی کا اپنے درمیان وجود مگر ہم تسلیم ہی نہیں کرتے۔ راہِ راست پر رواں ہونے کے گماں میں مبتلا رہتے ہیں۔
ڈرامے کے بجائے ہمارے ہاں ٹی وی ٹاک شوز آزاد اور بے باک ہوئے میڈیا کی بدولت بہت عرصہ ہٹ رہے۔ ان شوز پر نگار رکھنے کو لیکن اب کوئی ”مسعود نبی نور“ جنم لے چکا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر اب نیکی ہی نیکی نظر آتی ہے۔ نیکی کے اس بے پناہ ہجوم سے بھی میں گھبراگیا ہوں۔