وہ بدنصیب باپ جس کے نصیب میں ارضِ پاک پر سجدہ ریز ہونا نہیں لکھا تھا اپنے لختِ جگر کا کٹا سر اْسکے دھڑ سے جوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا پورا خاندان اسکی آنکھوں کے سامنا کٹا، بیٹے کے قتل پر تنہا رہ گیا تو شاید پاگل ہو گیا تھا۔ اتنے میں خودسر قاتلوں کا قافلہ نمودار ہوا تو لاشوں کے ڈھیر میں ایک نئی لاش کا مزید اضافہ ہو گیا۔ اب ایک دوسرے کے قریب دو سر اور دو دھڑ پڑے تھے۔ باپ بیٹے کے دھڑ اور سر۔ بیٹے کی آنکھیں باپ نے بند کر دی تھیں باپ کی کھلی آنکھیں آسمان کی طرف بارگاہِ الٰہ میں فریاد کناں تھیں کہ الٰہی میرا قصور کیا تھا؟…بچے کی عمر کیا تھی؟ یہ بحث لاحاصل ہے۔ کسی کے باپ اور اسکی ماں سے پوچھیں بیٹا کس عمر میں پیارا لگتا ہے؟ بچپن میں لڑکپن میں یا جوانی میں؟
ایک بزرگ بتاتے ہیں کہ انکے سکھوں کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ اْجاڑے پڑے تو کرتا دھرتا سکھوں نے نمائندہ مسلمانوں کو بلایا کہ آپ کی ہجرت کیلئے آسانی کا لائحہ عمل طے کر لیں۔ 35 عمائدین سکھوں کے ساتھ میٹنگ کیلئے چلے گئے، ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ ان مقتولین کے خاندانوں پر بھی شبِ خون مارا گیا۔ ان میں سے کسی خاندان کا ایک فرد خون کا قلزم عبور کر کے پاک سرزمین پر پہنچا یا دو پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ آزادی کی دہلیز پر جو قتل و غارت ہوئی وہ اس شعر کی زندہ تعبیر تھی …ع
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سرزمین ہند لاشوں کا میدان بن چکا تھا۔ ندی نالے اور دریا تک لاشوں سے اٹے پڑے تھے۔ کنوؤں میں ظالموں نے زخمیوں کو اْٹھا پھینکا، بعض عفت مآب خواتین آبرو بچانے کیلئے خود ہی کود گئیں۔ ایسے ایسے مظالم ہوئے جن کو بیان کرنیوالا بھی کوئی زندہ نہ بچا۔ بہرحال یہ حقیقت تھی کہ میدان خون سے رنگین اور لاشوں سے اٹے تھے۔ بچوں کی لاشیں، جوانوں کی لاشیں بوڑھوں کی، عورتوں کی لاشیں۔ کسی لاش کی عبا اْدھڑی اور کسی کی قبا اْتری ہوئی تھی۔ کسی کا آنچل چہرے سے سرکا ہوا تو کسی کی ردا سر سے اْتری ہوئی تھی۔ کسی کا دامن تار تار تھا تو کسی کے سینے سے خنجر پار تھا‘ زندہ انسانوں کو لاشوں میں بدلنے والے ان پر بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ اکثر ایسی لاشیں تھیں جن پر ماتم کرنیوالے بھی قریب ہی لاش بنے پڑے تھے۔ پاکستان میں آج بہت سے لوگ ہیں جو ان لاشوں پر آنسو بہاتے ہیں۔ مرنے والے کسی کے ماں باپ تھے، کسی کے بہن بھائی اور ماموں چچا تھے اب وہ شاید دنیا سے رخصت ہو گئے یا ضعیف العمر ہوں گے البتہ انکی نسلیں اپنے آباء کا غم یقیناً قیامت تک نہ بھلا پائیں گی اور جس نے یہ درد دیا، یہ زخم دیا، روح تک کو گھائل کر دیا کیا ان کو بھلا دینگے یا معاف کر دینگے؟ ہم کچھ نہیں کہتے‘ آزادی کے دوران جو ستم ڈھائے گئے اس قسم کی کیفیت یا اس سے کئی گنا کم اذیت سے گزرنے والے بتائیں وہ اذیت سے دوچار کرنے والوں کو معاف کر سکتے ہیں؟
تقسیم کی دہلیز پر جو کچھ ہوا وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جا رہا ہے، لاشیں گر رہی ہیں، حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے، اسکے باوجود ایک طبقہ اْس وقت کے آج کے ستم گروں کے ساتھ دوستی کا خواہشمند ہے بلکہ خود تو دوستی نبھا بھی رہا پوری قوم کو بھی دشمن کے ساتھ گلے ملنے اور ایک دستر خوان پر شیر و شکر ہونے کا درس دے رہا ہے۔ کئی بدبخت تو یہ مہم بھی چلارہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ دشمنی کر کے دیکھ لیا اب دوستی کرکے بھی دیکھ لیں۔کشمیریوں کی لاشوں اور زخموں کو نظرا نداز کرکے بھارت کے ساتھ کیسے دوستی ہوسکتی ہے۔ایسی بات وہی کہہ سکتے ہیں جن کے بھارت کیساتھ براہِ راست یا بالواسطہ مفادات وابستہ ہیں۔
روشن مستقبل اور اپنی زندگی اسلامی اقدار کے مطابق بسر کرنے کی خواہش لئے آگ اور خون کا دریا عبور کرتے ہوئے جو تاریک راہوں میں مارے گئے تھے اْنکے ورثاء اور لواحقین سب پاکستانی ہیں، جو ان شہدا کے خون سے کسی صورت بے وفائی نہیں کر سکتے۔ آج جن لوگوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات و دوستی کا پرچم اُٹھایا ہوا‘ انکی تاریخ اور خاندانی پس منظر کا جائزہ لیجئے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جن کے خاندان کا آزادی کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی بہا ہو۔ یہی بڑھ چڑھ کر بھارت کے ساتھ تجارت، دوستی اورتعلقات میں نئی جہتوں کی بات کرتے ہیں۔ خدارا! راسخ العقیدہ مسلمان نہ سہی انسان تو بنئے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کا خون ہو رہا ہے، انسانیت سسک رہی ہے۔ سرد لاشوں کے انبار لگے اور میدان اٹے ہوئے ہیں۔ آزادی کی خواہشیں بھسم ہو رہی ہیں۔ انسانیت ٹوٹا ہوا ساز تھا مے لاشوں کے انبوہ کو تک رہی ہیں، حوا کی بیٹیاں لٹی عصمتوں کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھ رہی ہیں، زخمی کراہ رہے ہیں۔بھارت کشمیریوں پربربریت کے نئے نئے طریقے آزما رہا ہے، پیلٹ گنوں کے استعمال سے سینکڑوں کشمیری موت کی وادی میں اتر گئے، ہزاروں زخمی ہو کر معذور اور ایک بڑی تعداد بینائی سے محروم ہو گئی۔ دنیا نے اس پر احتجاج کیا تو مرچی گیس استعمال کرنے کا حکم دیدیا گیا۔ مظاہرین کو ربڑ کی گولیوں اور واٹر گنوں سے منتشر کیا جا سکتا ہے۔ مرچی گیس کی ہولناکی کے باوجود پھر سے پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ اب تو معاملہ کشمیریوں کیخلاف سفاکیت سے بڑھ کر نسل کشی تک پہنچ چکا ہے۔ بھارتی فوج نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی شروع کردیا ہے جس کی کھلی جنگوں کے دوران بھی سختی سے ممانعت ہے۔
جولائی 2016ء میں برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جدوجہد آزادی کو نئی مہمیز ملی تھی۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی سفاکیت عالمی سطح پر بڑی شدومد سے اٹھائی گئی مگر وقت گزرنے اور میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد حکومت کی ترجیحات شاید تبدیل ہو چکی ہیں۔ ایسے معاملات میں ترجیحات تبدیل ہوں تو قدرت کی طرف سے بھی بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ کلبھوشن کے بارے میں پاکستان کے سخت موقف کے بعد بھارت اپنے دوستوں سے مایوس ہو کر معاملہ عالمی عدالت لے گیا۔ اسی عدالت میں ہماری طرف سے معاون جج مقرر نہ کیا گیا جبکہ جو وکیل بھیجا گیا اس نے دریا کوزے میں بند کرتے ہوئے 50منٹ میں اپنی بات ختم اور دلائل مکمل کر لئے جبکہ ابھی مزید چالیس منٹ انکے ڈسپوزل پر تھے۔ اب پھر کیس کی سماعت ہونیوالی ہے۔ معاون جج مقرر کردیا گیا ہے ۔وکیل بھی بشرط فرصت وہاں چلا جائیگا۔ کلبھوشن کو پاکستان میں کشمیر سنگھ نہیں بننے دیا گیا تو عالمی عدالت میں بن سکتا ہے۔ دشمن کو جس طرح ڈھیل دی جا رہی ہے اوپر سے ڈھیل دینے والوں کی اتنی ہی کڑی گرفت ہو رہی ہے۔ کم از کم آزادی کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ تعلقات، تجارت اور دوستی سے مشروط کر دیجئے۔
اس سب کے باوجو دشمن کے ساتھ دوستانہ تعلقات وبے پایاں تجارت کی خواہش ہے تو سمجھ لیجئے آپ بے گور و کفن لاشوں پر‘ عفت مآب خواتین کی عصمتوں پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔
کشمیر… لاشیں اورامن کی تلاش
Apr 25, 2018