میرا اس بارے میں نہ مشاہدہ ہے نہ مطالعہ اور نہ ہی تجربہ کہ دنیا کے مختلف علاقوںمیں سیانا ہونے کیلئے ایک ہی طرح کی خوبیاں درکار ہیں یا یہ سیانے اپنے اپنے علاقائی اثر و رسوخ کے باعث ہمہ گیر اور عالمگیر تسلیم شدہ خوبیوں سے تعلق توڑ کر علاقائی اثر کے تحت بعض خود غرضانہ اور مفاد پرستانہ رویوں کو اختیار کرکے ان کو دانش و خرد کی کسوٹی قرار دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح سیاستدان جمہوریت کے تصور سے عالمگیر اصولوں اور سچائیوں کے برعکس ذاتی اغراض، انا اور ہٹ دھرمی کے فریب کو اتنا طاقتور بنا کر پیش کرتے ہیں کہ سادہ لوح اس کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہ کام بڑے بڑے سیاستدانوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے حصول کیلئے کیا۔ سیاستدانوں کی اسی خود فریبی نے ملک و قوم میں انتشار پیدا کردیا اگرچہ ایسا کرنیوالوں کو بھی اس انتشار کے اژدھے نے ضرور ڈسا اور کسی کو بھی نہیں بخشا۔ سیانوں کو علاقائی، ذاتی اور مقامی اثر و رسوخ کے فریب سے الگ کرکے دیکھیں تو دنیا بھر کے سارے سیانے اس بات پر متفق نظر آئینگے کہ ظالم شخص اپنے ظلم کی سزا سے بچ نہیں سکتا اور ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو اسکی جگہ سے ہٹا دیا جائے۔ غیر فطری اور غیر حقیقت پسندانہ انداز کو فطری اور حقیقت پسندانہ بنا کر پیش کیا جائے اور یہ کام کوئی انصاف پسند یا ہوشمند شخص نہیں کریگا بلکہ ہمیشہ ایسی حرکت کوئی ظالم شخص ہی کریگا۔ اگر چیزوں کی اکھاڑ پچھاڑ کرکے اپنی ذات کو نمایاں کرکے پیش کرنیوالے کا تعلق سیاست سے ہو تو اپنی قوم پر ایسا ظلم کرنیوالا تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ بزدل، بدکردار اور نمود و نمائش کرنیوالا اور ہمہ وقت خوشامدیوں میںگھرے رہنے والے کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔ انکے نعرے اور دعوے کھوکھلے ہوتے ہیں اور اپنے نعروں اور دعوئوں پر یہ خودعمل نہیں کرتے سیاستدانوں کی ایک کھیپ وہ بھی ہے جو جمہوریت کے وینٹی لیٹر پر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ قوم کی خدمت کرنے میں مردہ اور بے حس اور ذاتی لوٹ کھسوٹ میں وینٹی لیٹر پر پڑے ہونے کے حوالے سے جمہوریت کی آکسیجن پر زندہ، ملک اور قوم کیلئے ایسے مردہ اور مردہ ضمیروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کسی سیانے کا یہ نعرہ آج کل کافی پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ ’’پاکستان کو عزت دو‘‘ یہ ایسا نعرہ ہے جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے مگر بوجوہ ادھر کسی نے وہ توجہ نہیں دی جو ان حروف کی حرمت اور اہمیت کے پیش نظر دی جانی چاہئے تھی۔
اس سے پاکستان کیخلاف پالیسی چلنے والے سیاستدانوں کو لوگ خودجمہوریت کے وینٹی لیٹر کے سوئچ آف کرکے انکے مردہ ہونے کا اعلان کر دینگے یہ مردہ ضمیر چند ٹکوں کی خاطر یا کسی بیرونی طاقت کو خوش کرنے کیلئے اپنے ہی ملی وجود پر کلہاڑے چلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں سینٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے فوج اور عدلیہ کے بارے میں جو گوہر افشانی کی اس پر انہیںپارٹی کی ہائی کمان نے اس منصب سے تو علیحدہ کر دیا مگر ان ’’فلسفے‘‘کو روکنے کی کوئی تدبیر نہ کی، گزشتہ روز ایک پاکستانی ٹیلی ویژن چینل پر وائس آف امریکہ پروگرام میں موصوف کو آئین کی 280 شقوں میں صرف ایک شق نظر آئی کہ اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کی شق کے باوجود پاکستان میں کوئی غیر مسلم صدر مملکت نہیں بن سکتا، کوئی وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ صدر مملکت کیلئے مسلمان ہونے کی اس آئین کی وہ شق انہیں کیوں نظر نہیںآئی؟ یہ آئین تو اُنکے سیاسی قائد ذوالفقار علی بھٹو کا بنایاہوا ہے جس کی طفیل یہ لوگ سیاسی زندگی میں سانس لے رہے ہیں۔ انکے سفید بال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں نہ یہ دودھ پیتے بچے تھے نہ ہی نابالغ ۔ ہمت کرکے ان سے بات کرتے کہ حضوروالا! آپ نے صدر مملکت کیلئے مسلمان کی شرط رکھ کر بڑا ظلم کیا ہے اقلیتوں کے بنیادی حقوق سلب کئے ہیں۔ محض عالمی سطح پر اپنے کوتاہ قامتی کو رجسٹرڈ کرانے کیلئے ایسی باتوں پر پیپلز پارٹی کی خاموشی چہ معنی دارد؟ بھارت میں مسلمان وزراء اعظم کے نام ہی بتا دیتے جس کی جمہوریت تو مسلمہ ہے۔ پاکستان میں تو ایک عیسائی چیف جسٹس آف پاکستان بنا ایک ہندو چیف جسٹس آف پاکستان بنا۔ قائداعظم نے ایک ایسے مرزائی کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنایا جس نے قائداعظم کے جنازہ میں شرکت کی مگر نماز جنازہ نہ پڑھی۔ ذرا بھارت میں کسی مسلمان کی اس سطح پر تقرری کو بطور حوالہ ہی پیش کر دیں ۔
پاکستان کی بات کرنیوالے سیاستدان جب ایسے انتشار پیدا کرنیوالے اور آئین و قانون کی من مانی تشریح کرنیوالے اور پورے آئین سے آنکھیں بند کرکے کسی ایک شق کو ابھارنے اور اچھالنے والوں کے اندر جھانکنے کی بجائے انہیں محض اپنے مفاد اور سیاسی غرضوں کیلئے ساتھ کھڑا کر لیتے ہیں تو ہر محب وطن پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ وہ سیاستدان کہاں چلے گئے جو کہتے تھے۔
خدا محفوظ رکھے اس وقت سے میری غیرت کو
کہ دشمن بھی ترس کھا کر میرا غمخوار ہو جائے
نہ وہ سیاسی غیرت رہی نہ وہ سیاسی شعور صرف سیاسی مفاد اور اسی کا مجسم اور بھیانک چہرہ دیکھ کر ظلم کی کسی تشریح کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی ظلم ہے اس ظلم سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ ہر پاکستانی کی زبان پر یہ نعرہ ہو پاکستان کو عزت دو۔
ہر پاکستانی کے عمل سے ظاہر ہو، پاکستان کو عزت دو مگر کیا کریں پہلے ن لیگ نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف آصف زرداری کے ایک قریبی کو انہوں نے سینٹ کا چیئرمین بنوایا جو انکے ایجنڈے پر کام کرتا رہا۔پھر اسی کا انعام اگلی سینٹ میں ن لیگ کی طرف سے پیپلز پارٹی کے رکن سینٹ کو چیئرمین بنانے کی آفر دے دی جسے زرداری نے مسترد کر دیا۔ اب پھر ن لیگ کا ایک متوالا فرحت اللہ بابر کو نگران وزیراعظم دیکھنے کا متمنی ہے اللہ خیر کرے۔!