یہاں پر انسان اپنی ساکھ کی لڑائی لڑرہاہے ہر فیصلہ نئے پاکستان کے نعرے کی نذر ہورہاہے، گنجی نہائے کیا تو نچوڑے کیا کہ مصداق عمران خان کی حالت زار سب کے سامنے ہے، الیکشن جیتنے کی چنوتی کے بعد اکھاڑا مارلینا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے پائوںپہ وزن دے کر کھڑا رہنا ہی پی ٹی آئی کا مطمع نظر ہونا چاہیے تھا۔ وہ تو اپنے ہی پائوں کی زمین کھودنے لگے ہیں، اپنے ہی پھیلائے ہوئے پروں کو زخمی کرنے لگے ہیں، نیب اور سیاستدانوں کی ککے زینوں والی لڑائی نہ ختم ہونے والی شاہراہ قرارقرم کااستعارہ بنتی جارہی ہے۔ کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے جب ہم اپنے محور سے ہٹ کر اطراف کے مراکز میں تانک جھانک شروع کردیں تو معاملات ایسے ہی ہوجاتے ہیں، جیسے وطن عزیز کے مختلف عہدیداروں کے۔ جب وزیراعظم نے حکومت سنبھالی تو ان کے اطراف میں کئی سیاستدان لوٹے کے چینل سے ان کے منظور نظر ہونے کو منڈلانے لگے اور کامیاب ہوگئے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بادشاہ کبھی اپنی چالوں سے نہیں مشیروں وزیروں کی عنایت سے ہارتاہے سیاست کی جو نام نہاد جمہوریت شطرنج کی بساط پہ کھیلی جارہی ہے،اس کے وزراء تبدیل ہوجانے کے خوف میں مبتلا تھر تھر کانپ رہے ہیں جو جی دار ہیں وہ استعفی جیب میں لے کر اس لیے پھر رہے ہیں کہ جیل سے پہلے ضمانت ضروری اور عقملندی کا فیصلہ ہے، حمزہ شہباز کا شمار بھی اب ایسے ہی عقلمندوں میں ہونے لگاہے۔ اپنی کابینہ بنانے کیلئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وزیراعظم نے صرف بشریٰ بی بی سے ہی مشورہ کیا تھا۔ آج کل زمانہ اتنی ترقی کرچکاہے اور نت نئی ایجادات ہورہی ہیں وہیں پہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے شہبازشریف جیسا کوئی روبوٹ تیار کرلیتے، سکرین پہ اسے دکھاتے اور پیچھے بزدار صاحب بولتے رہتے، آج کل عثمان بزدار کوچنوتیاں بہت پریشان کررہی ہیں اردو لغت فرہنگِ آصفیہ سے (اہداف) کے معنی تلاش کررہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ وہ معنی تک پہلے پہنچتے ہیں یا مستعفی ہونے کی اطلاع یا پھر تبدیلی وزارت۔موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے8ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے جوکہ ترجیحات اور لائحہ عمل بنانے کیلئے کافی ہوتاہے تو زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں، کوئی مثبت تبدیلی تو دور کی بات ہے یہاں تو حالات پہلے سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں، عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوگیاہے، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی وگیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، لوٹ مار اور بدترین طرز حکومت نے ایک عام پاکستانی کا جینا مشکل کردیا ہے۔عمران خان نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اتنے بلندوبانگ دعوے کئے تھے کہ اس وقت تو واقع بہت پرکشش نظر آتے تھے مگر ان میں سے بیشتر حقیقت سے بہت دورتھے اوریہی وجہ ہے کہ آج ہر موقع پر جب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ اور گرجدار دعوے ان کا پیچھا کرتے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے وہ ہروقت یہ کہتے تھے کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے انکے پاس ایک جامع پلان اور انتہائی قابل ٹیم موجود ہے جوکہ عوام کی زندگیاں بدل کررکھ دے گی، آج جب اقتدار سنبھالے8ماہ گزرچکے ہیں تو نہ کئی پلان نظر آتاہے اور نہ ہی ٹیم بلکہ اب تو انہوں نے اپنی اس قابل ترین ٹیم میں سے بھی بیشتر کو بدل دیاہے، اپنے سب سے قابل ٹیم ممبر اور اوپننگ بیٹسمین اسدعمر کو بھی باہر نکال دیا ہے یاد رہے کہ یہ وہی ٹیم ممبر اور اوپننگ بیٹسمین اسد عمر ہیں جن کو عمران خان معیشت کا ارسطو کہاکرتے تھے، اب عمران خان تبدیلی کا یہ سفر پیپلزپارٹی کے سابق وزراء اور آصف علی زرداری کے دیرینہ ساتھیوں کے ذریعے طے کردینگے، جناب عمران خان ہروقت یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے معیشت کا بیڑا غرق کردیاہے مگر اب اسی معیشت کا بیڑا انہوں نے پیپلزپارتی کے وزیرخزانہ جناب حفیظ شیخ کے حوالے کیا ہے، اسی طرح اب تحریک انصاف اور عمران خان کی پالیسیز کا دفاع پیپلزپارٹی کی سابق وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوان کرینگی، اس وقت وفاقی کابینہ کے تقریباً 35%ارکان غیرمنتخب شدہ ہیں جس میں سے بیشتر کا تحریک انصاف کے نظریئے سے دور کا بھی تعلق نہیں اور یہ مختلف ادوار میں حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں اس لیے اب آسانی سے کہاجاسکتاہے کہ عمران خان کا تبدیلی کا نظر ایک سراب بن چکاہے۔اگلے مالی سال کابجٹ آنے میں تقریباً دوماہ کا عرصہ رہ گیاہے اور ابھی تک یہ بھی نہیں پتہ کہ بجٹ کا حجم کیا ہوگا کیونکہ ابھی IMFسے معاہدہ ہونا باقی ہے جس کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ کتنا قرض ملے گا جس کی بنیاد پر بجٹ بن سکے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے حالات اور بھی سخت ہونگے اورمہنگائی اور بے روزگاری کا ایک نیا طوفان آئے گا جسے عوام برداشت نہیں کرسکیں گے، جب تک عمران خان صاحب زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتے سیاسی درجہ حرارت کو کم نہیں کرتے اور اپوزیشن کی سیاسی اہمیت کو نہیں مانتے اس وقت تک حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے، تبدیلی اور ایسے میںسب کچھ کرگزرنے کا زعم اب ختم ہوجانا چاہیے، یکدم نہ کچھ بدل سکتاہے او رنہ ہی اکیلا شخص انقلاب برپا کرسکتاہے۔ جب جناب وزیراعظم اپنی ترجیحات درست کریں، نفرت اور غیرلچکدار رویئے سے باہر نکلیں اور سب کو ساتھ لے کر دور اندیش پالیسز مرتب کریں، غیرفطری تبدیلی اور آنکھ جھپکنے میں نئے پاکستان کا بخار اب ختم ہوجانا چاہیے ورنہ آگے بڑھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا جس کا اندازہ انہیں گزشتہ آٹھ ماہ کے تجربہ سے ہوجانا چاہیے۔