کرونا وائرس نے کرۂ ارض کے ممالک میں بلاتخصیص انسانوں کو موت سے ہمکنار کرنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کے نتیجے میں بڑے بڑے ممالک میں عوامی طبقوں کی مقتدر قیادتیں اس خوفناک عفریت کی ہلاکت انگیزیوں کے سدباب کے لئے اپنے اپنے تحفظات کو دفن کر کے یکجان ہو چکی ہیں اور وہ اپنی اپنی جگہ عوام کو کرونا وائرس کے اثرات سے بچانے میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ایسے تمام ممالک کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں اور قومی فلاح و بہبود کے پروگراموں کی رفتار بھی تھم چکی ہے۔ مگر جہاں تک ارض پاکستان پر کرونا وائرس کے مہلک اثرات کا تعلق ہے اس کے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام کے نظام اقتصادیات و معیشت ، طرز بود و باش۔ حتیٰ کہ سماجی روابط تک کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ بات ہوئی ہے کہ ایک طرف کرونا وائرس کی صورت میں موت کے مہیب سائے ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے کو ڈھانپے ہوئے ہیں۔ چرخ نیلی فام اس امر کی گواہی دے گی کہ ملک کے عوام کی عظیم اکثریت سراسمیگی کے عالم میں افراتفری کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہ بیان کرتے ہوئے قلم کانپ اٹھتا ہے۔ داستان سناتے ہوئے زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ کرونا وائرس کے درآنے سے پہلے تک بھی پاکستان میں ان عوام کے علاج و معالجے کے لئے ڈھنگ کے سرکاری ہسپتال ہی نہیں تھے جو لوگ پاکستان میں دو دو تین تین عشروں تک مسلسل اپنے دلفریب نعروں اور دعوئوں کے بل بوتے پر برسرِ اقتدار رہے۔ انہوں نے آزادی کے بعد وراثت میں ملنے والے سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو ملنے والی سہولتوں سے لوگوں کو محروم کر دیا۔ بلکہ ان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ ماضی کے ان ارباب اختیار نے اپنے اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا اپنا اہل خانہ اور عزیز و اقارب کے علاج و معالجے کے لئے سرکاری خزانے سے یورپی اور دیگر ممالک بھی جا کر علاج معالجہ کرانے کی قابلِ نفرت روایت قائم کی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں عوام کی اس عظیم اکثریت کے لئے علاج و معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہو گیا۔ جن کے خون پسینے کی کمائی سے ایوان اقتدار کے سابقہ مکین پرُآسائش زندگی گزارتے تھے۔ پاکستان میں ایسے محروم اور پسے ہوئے فاقہ کش لوگوں کی تعداد کل آبادی کا چالیس فیصد حصہ کے لگ بھگ ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ جب ماضی کے جمہوریت کش آمروں کے پروردہ کاروباری سیاسی عناصر کی یہی کھیپ پاکستان میں محروم طبقے کے بلکتے ہوئے جاں بلب مریضوں کی کسی قسم کی عملی مدد کرنے کی بجائے ہسپتالوں کے نظام علاج کے حوالے سے برسراقتدار قیادت پر تنقید و تضحیک کے نشتر برساتے دم نہیں لیتی۔
موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آئے صرف ایک سال اور آٹھ ماہ ہوئے ہیں۔ اسے جس حالت میں ملک کی عنان حاصل ہوئی تھی۔ ملک کی مجموعی اقتصادی معاشی اور قرضوں کی صورت حال جس درجہ ناگفتہ بہ تھی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس حوالے سے برسرِ اقتدار قیادت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنانے والے ایسے ایسے بزعم خور دانش ور تجزیہ کاروں کا سارا زور اسی بات پر ختم ہوتا ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس سوچ کے حامل عناصر کو اس پاکستان سے اور اس کے عوام کے ان دکھوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جو کرونا وائرس کے عذاب سے دوچار ہیں اور ایسے بھی ان کی ضروریات کے تقاضے کیا ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسا کہ الیکٹرانک میڈیا ’’ضرب المثل اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کی عکاسی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مستعار لئے ہوئے نظریات و سوچ و فکر کے حامل اور اپنی سیاسی و جمہوری جدوجہد سے نابلد لوگوں کو چہچہانے کی شاخ میسر ہو گی تو یہی کچھ ہو گا۔
تاریخ اس حقیقت کو اپنے اوراق میں سمیٹ رہی ہے کہ کرونا وائرس کی ہلاکت انگیز کارروائیوں کے دوران بھی اپوزیشن کے بڑے بڑے نام نہاد شہ دماغ میڈیا کے سہارا جہاں اپنی ’’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘‘ کے مصداق حکومت کے عوامی فلاح کے منصوبوں کو ہدف تنقید بناتے رہے وہاں ان کے بیانات سے قومی سلامتی کے ادارے پر بھی حرف آتا رہا اور یہی وجہ ہے کہ کسی قسم کی برمحل باز پرس نہ ہونے پر الیکٹرانک میڈیا پر نوزائیدہ قسم کے تجزیہ کار اسٹیبلشمنٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس سے عسکری ادارہ کا نام لینے سے قطعی طورپر کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کاش یہ عناصر اس ادارے کی ضرورت و افادیت کا احساس کریں؟
بلاشبہ ملک و قوم پر کرونا وائرس ایسی خوفناک آفت سے پیدا شدہ حالات میں کچھ ذمہ دار افراد کی طرف سے بھی عجیب و غریب قسم کے ناقابل فہم قسم کے فقرات مطالبات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک تقریب سے خطاب میں یہ بھی کہہ گئے کہ ہمیں ارکان پارلیمنٹ کو اہمیت دینا ہوگی۔ خدا معلوم اس سے ان کی کیا مراد ہے۔ یوں لگتا ہے جیسا کہ ان کے خیال میں ارکان پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کو جس قدر اہمیت دی جا رہی ہے‘ جس کا ارکان پارلیمنٹ کی بھاری تنخواہوں‘ مراعات‘ قیام و طعام‘ سفری سہولتوں اور دیگر آرام و آسائشی غریب عوام کے ٹیکسوں سے مہیا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات نے تو ارکان پارلیمنٹ کے انتخابات کو بھی اگر انڈسٹری نہیں تو کاروبار کی شکل دیدی ہے کہ مال لگائو اور کمائو۔
اسی طرح وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید بھی اکثر اوقات بے خیالی یا درپردہ کسی سوچ و فکر کے تحت کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں۔ گزشتہ دن چہچہاتے رہے کہ عمران خان کو میڈیا سے صلح کر لینی چاہئے۔ ان کے اس نعرے نے صحیح الفکر حلقے میں اگر کچھ سوالات اٹھا دیئے تو بجا ہیں۔ کیا عمران خان کی واقعی میڈیا سے معرکہ آرائی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس میں زیادتی کا مرتکب کون ہے؟ اس حوالے سے پہل کس طرف سے ہوئی؟ عمران خان اور ان کی حکومت پر بلاوجہ تنقید و تضحیک کا سلسلہ کس بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا کے بعض بزرجمہروں کی طرف سے جاری رکھا جاتا ہے؟ شیخ رشید نے میڈیا پر اپنے اس مطالبے کو کیوں منظرعام پر لانا ضروری سمجھا ہے؟ شیخ رشید کویہ بات عمران خان سے زبانی طورپر کہنے میں کون سی رکاوٹ درپیش تھی؟ کیا شیخ رشید کو یہ بات کسی نے کہنے پر مجبور کیا؟وجوہ کچھ بھی ہوں‘ ایوان اقتدار کے مکینوں کی اس قسم کی بدحواسیاں قوم میں غلط فہمیوں کو جنم دینے کا موجب بنتی ہیں جن سے پرہیز خود ان کے مفاد میں ہے۔