آج سیاسی ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر کرونا وائرس سے بچائو کی ٹھوس پالیسی طے کرنا ہوگی

Apr 25, 2020

ڈاک ایڈیٹر

وزیراعظم کا مکمل لاک ڈائون کے بجائے سمارٹ لاک ڈائون کا عندیہ اور کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے نمائندہ ڈاکٹروں کی فکرمندی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں سمارٹ لاک ڈائون کی طرف جانا پڑیگا۔ غیرمعینہ مدت تک کا لاک ڈائون کوئی آپشن نہیں ہے۔ مکمل لاک ڈائون کرلیں تو بھی کرونا نہیں رکے گا۔ ہمیں وائرس کے ساتھ رہنا پڑیگا اور اب لوگوں کیلئے دکانیں کھولنی پڑیں گی۔ گزشتہ روز انہوں نے احساس ٹیلی تھون پروگرام سے خطاب اور مختلف ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سمارٹ لاک ڈائون کے تحت ان علاقوں کو کنٹرول کیا جائیگا جہاں کرونا پھیلا ہے۔ یہ ٹیلی تھون سرکاری ٹی وی پی ٹی وی اور مختلف نجی ٹی وی چینلز پر بیک وقت ٹیلی کاسٹ ہوا جس کے دوران لوگوں نے وزیراعظم کے کرونا ریلیف فنڈ میں تین ارب روپے کے قریب رقوم جمع کرائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ سب ممالک سمجھ رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈائون نہیں کیا جا سکتا۔ خوف ہے کہ چھوٹا کاروبار کہیں مکمل طور پر ختم نہ ہو جائے۔ لاک ڈائون سے متعلق فیصلہ صرف ایلیٹ کلاس کیلئے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کیلئے ہونا چاہیے۔ کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے‘ اس صورتحال میں ہم سب کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ آگے جو وقت آرہا ہے‘ ہم سب کو یکجا ہونا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے عوام کو کرونا وائرس کے مضمرات سے بچانے کیلئے دو ماہ قبل فروری کے وسط میں لاک ڈائون کی طرز کے احتیاطی اقدامات کی پالیسی طے کرلی تھی جس کا باقاعدہ اعلان گزشتہ ماہ مارچ کے وسط میں کیا گیا اور تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ تجارتی مراکز بھی مخصوص مدت کیلئے بند کردیئے گئے اور پھر لاک ڈائون کے عرصہ میں توسیع کی جاتی رہی۔ یہ احتیاطی اقدامات ابھی تک اٹھائے جارہے ہیں تاہم وزیراعظم نے شروع دن سے ہی کرفیو کی طرز کے لاک ڈائون سے گریز کیا اور وہ اپنی ہر تقریر اور ہر پیغام میں باور کراتے رہے ہیں کہ مکمل لاک ڈائون کی صورت میں بے روزگاری اور فاقہ کشی بڑھے گی اس لئے ہم مکمل لاک ڈائون کے ذریعے لوگوں کو کرونا سے بچاتے بچاتے انہیں فاقہ کشی کی جانب نہیں دھکیل سکتے۔ ملکی حالات کے تناظر میں انکا یہ استدلال درست ہے کیونکہ ہمارے پاس ترقی یافتہ ممالک جیسے وسائل نہیں کہ لاک ڈائون کے دوران لوگوں کے گھروں تک اشیائے خوردونوش پہنچائی جاسکیں۔ اس صورتحال میں لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے جس سے ملک میں ایک نیا بحران پیدا ہوگا‘ تاہم کرونا وائرس جس تیز رفتاری کے ساتھ پوری دنیا میں پھیلا ہے اور وسیع پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کا باعث بن رہا ہے اسکے پیش نظر احتیاطی اقدامات سے گریز کی پالیسی بھی سودمند نہیں ہوسکتی۔ اسی بنیاد پر سندھ حکومت نے سخت لاک ڈائون کی پالیسی شروع دن سے ہی طے کرلی تھی جس میں اب ماہ رمضان المبارک کے دوران مزید سختی کردی گئی ہے اور شام پانچ بجے کے بعد مکمل لاک ڈائون کرکے تمام کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے مابین اختلاف رائے بھی ہوا اور وزیراعظم سندھ حکومت کے اس اقدام کو اسی تناظر میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے کہ اس سے پھیلنے والی بیروزگاری اور فاقہ کشی کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ سندھ حکومت کا یہ استدلال رہا ہے کہ ہم نے کرونا وائرس کے چیلنج میں سرخرو ہونا ہے تو مکمل لاک ڈائون کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں جبکہ کرونا وائرس سے متاثرہ دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی مکمل لاک ڈائون کرکے ہی کرونا وائرس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بلاشبہ ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا وقت نہیں ہے کیونکہ کرونا وائرس ملک میں جس تیز رفتاری کے ساتھ پھیل رہا ہے‘ اس سے بچنے کیلئے ہمیں بہرصورت سخت احتیاطی اقدامات کی جانب ہی جانا ہوگا۔ گزشتہ روز عالمی ادارۂ صحت نے بھی پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلنے اور اس سے جاں بحق افراد کی تعداد بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ڈبلیو ایچ او کے وضع کردہ احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا ہے جو سخت لاک ڈائون کے ہی متقاضی ہیں۔ یہی تقاضا گزشتہ روز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بھی لاہور میں منعقدہ اپنی پریس کانفرنس میں کیا ہے اور ہاتھ جوڑ کر اپیل کی ہے کہ خدارا! ملک کو امتحان میں نہ ڈالیں۔ انکے بقول اگر کرونا وائرس کے مریض اسی طرح بڑھتے رہے تو ملک کے ہسپتال انکے علاج معالجہ کیلئے ناکافی ہونگے اور انہیں سڑکوں پر لٹا کر علاج کرنا پڑیگا۔ انہوں نے عبادات کیلئے مساجد اور امار بارگاہوں کو کھولنے کی بھی اسی تناظر میں مخالفت کی۔
اسکے برعکس وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز لاک ڈائون میں مزید نرمی کا عندیہ دے دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم پورا ملک بند کردیں تو بھی کرونا نہیں رک سکتا‘ اس سے یقیناً حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے ابہام پیدا ہوگا۔ بے شک لوگوں کو بے روزگاری کا شکار ہونے سے بچانا بھی حکومت کی ترجیح ہے تاہم انسانی جانوں کو بچانا زیادہ مقدم ہے جس کیلئے موجودہ صورتحال میں ہمیں گومگو کی پالیسی سے نکل کر ٹھوس‘ جامع اور پورے ملک میں یکساں لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کرونا وائرس سے ملک میں مجموعی ہلاکتیں 240 سے تجاوز کرچکی ہیں اور کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے 12 ہزار کے قریب جا پہنچی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں کرونا وائرس زیادہ پھیل رہا ہے‘ اگر اس حوالے سے پنجاب اور سندھ میں ایک دوسرے سے متضاد پالیسیاں اختیار کی جائیں گی تو کرونا وائرس بداحتیاطی کی بنیاد پر ہمارے لئے زیادہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی امداد اور بحالی کے اقدامات مستعدی کے ساتھ اٹھا رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے احساس پروگرام کے تحت قومی وسائل سے ملک کے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو 12, 12 ہزار روپے ادا کرنے کی منظوری دی جس پر عملدرآمد کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں بھی اندرون اور بیرون ملک سے اربوں روپے کے عطیات جمع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح مخیر حضرات اور مختلف فلاحی تنظیمیں بھی اپنے طور پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اس لئے امدادی کاموں کا اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی تعاون سے عمیلت پسندی کے ساتھ آغاز کیا جائے تو مکمل لاک ڈائون کے دوران بھی لوگوں کے گھروں تک امدادی سامان اور رقوم بہم پہنچانے میں کوئی دقت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں وقتی طور پر سیاسی ترجیحات سے باہر نکل کر مشترکہ حکمت عملی کے تحت اور ایک دوسرے کا تعاون حاصل کرکے کرونا وائرس کے چیلنج سے عہدہ برأ ہونا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خود بھی اس صورتحال میں سب کے یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے اس لئے ہماری اولین ترجیح کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کی ہی ہونی چاہیے‘ چاہے اس کیلئے کوئی بھی قدم کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

مزیدخبریں