’’اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا‘‘

مجھے افسوس ہے کہ امسال 21 اپریل کو حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کی برسی پر کالم میں ان کی عظیم شخصیت کو خراج تحسین پیش نہیں کرسکا بار بار عرض کررہا ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خاتم النبینؐ پر مکمل ایمان رکھنے والی مسلمان قوم ہیں۔ کرونا سے بالکل گھبرانا نہیں، بس اللہ تعالیٰ سے استغفار کے ساتھ احتیاط کرنی ہے۔ پہلے انبیاء کرام کی امتوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کردیا تھا۔ اللہ کریم کا خاتم النبین ؐ سے وعدہ ہے کہ اے محبوب ؐ دنیا میں آپؐ کی امت پر ایسا عذاب نہیں لایا جائے گا۔ بلاشبہ آج پہلی امتوں والی جاری بداعمالیاں ہم میں موجود ہیں۔ زنا، بدکاری، شراب نوشی، رشوت، سود کھانا، ناپ تول میں کمی، زکوٰۃ ادا نہ کرنا ریاکاری، والدین کی نافرمانی، معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی، عہدوں کا غلط استعمال کرنا، قوم کا مال ذاتی سمجھ کر کھانا وغیرہ یہ سب ہم میں موجو دہیں۔ زلزلہ، کرونا، سیلاب جیسی آفات صرف اور صرف ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کیلئے آتی ہیں ورنہ اللہ کریم تو آنکھ جھپکنے سے قبل پوری دنیا کو نیست و نابود کرسکتا ہے مگر یہ صرف ہمارے آقا خاتم النبیﷺ کی ذات مقدسہ کی برکات ہیں کیونکہ ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری رسولؐ ہیں‘‘ ہمیں پریشان نہیں بلکہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’کرونا‘‘ سے نہ سہی ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانا تو ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے نہ تو کسی کو اپنی عبادت پر غرور کرنا چاہئے اور نہ ہی ہمیں اپنے گناہوں کی بہتات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا چاہئے۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ میری رحمت سے ہرگز ناامید نہ ہونا، سچے دل سے توبہ کریں اپنے لئے، اہل خانہ کیلئے اور جو ہمارے عزیز و اقارب اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے ہر لمحہ اس سے فضل و کرم مانگنا یہ ہمارا وظیفہ ہونا چاہئے کیونکہ اس وحدہ لاشریک کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں بقول اکبر الٰہ آبادی
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
میں جان گیا بس تیری پہچان یہی ہے
جن کی تنخواہیں راتوں رات سو فیصد بڑھ جاتی ہیں۔ مزدوروں، بزرگوں، غرباء و مساکین کوکچھ دیر کے لیے گھروںمیں بٹھا دیجئے۔ یہ وزراء اپنے کندھوں پر آٹے کی بوریاں اٹھا کر ان مستحقین کے گھروںمیں خود دے کر آئیں۔ ریاست مدینہ کا عملی خواب بھی پورا ہو جائے گا جو لوگ کرائے کے مکانوںمیں ہیں ۔ بہت پریشان ہیں۔ اس وقت حکومت ان کو ریلیف دینے کے لیے بھی عملی اقدامات فوراً اٹھائے۔ حکومتی و اپوزیشن ارکان اس موقع پر تو اللہ تعالیٰ سے ڈر جائیں ، ایک دوسرے پر لفظی حملے کرنے سے شرم اور اجتناب کریں۔ محکمہ اوقاف کے پاس بہت مال جمع ہوا ہو گا۔ جن کا خرچ بھی نہیں ہوتا۔ بس مزارات سے مال جمع کرنا ہی ہوتا ہے وہ سب لے کر غرباء کو حقیقی معنوں میں ریلیف دیں۔ وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کی یہ بات اہم ہے کہ معیشت تو بحال ہو ہی جائے گی مگر جو لوگ اس مرض میں دنیا سے چلے گئے وہ واپس نہیںآئیںگے۔‘‘ بس اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی بھی نااُمید نہ ہونا۔‘‘

ای پیپر دی نیشن