کرونا وائرس اور کچی آبادیاں

Apr 25, 2020

شارق جمال خان

حکومتِ پاکستان کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے آگے بند باندھنے کے لئے یک مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن کیا یہ پالیسی جامع و ہمہ گیر ہے؟ آئیے پاکستان کے طول و عرض میں واقع بے شما ر کچی آبادیوں اور slumsکے حوالے سے اس امر کا جائزہ لیں۔ ایک اوسط پاکستانی اب اس حقیقت سے آگاہ ہو چکا ہے کہ ا س بیماری کے تشویشناک پھیلاؤ کو روکنے کا بہترین طریقہ سماجی دُوری اور خودساختہ گوشہ نشینی ہے۔دنیا بھر میںمختلف وبائی امراض کے انسدادکے لیے عمومی طور پر ایسے ہی اقدامات کئے جاتے ہے۔ واضح رہے کہ عوام الناس کے رہن سہن اور بُود و باش کے طریقوں اور اسالیب کا اثر وبائی امراض کے پھیلاؤ پربالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طرح پڑتا ہے۔ شہری اور دیہاتی علاقوں میں عوام کے رہن سہن کے اندازجداہوتے ہیں۔جن مقامات پر لوگ بڑی تعداد میں اور ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں وہاںوبائیں پھیلنے کا خدشہ بدرجہ ہا زیادہ ہوتا ہے۔ایسے علاقوں میں بیماریوں کو روک تھام کے لئے تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔کچی آبادیاں یا slums ایسے ہی علاقوں میں شامل ہیں۔ پاکستان میں بے شمارکچی آبادیاں یاslums ہیں اور حکومتِ پاکستان کواس حوالے سے بھی معنی پرورپالیسی سازی کی حاجت ہے۔ دنیا بھر میں COVID-19 جیسی خوفناک وبا کو روکنے کے لیے سماجی دوری کے تصوّرکو نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال میں لایا گیا ہے ۔پاکستان میںبھی اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔تاہم کچی آبادیوں کے مکینوں کو ان کی اجتماعی معاشرتی عادات و خصائل کے سبب خودساختہ گوشہ نشینی کی طرف مائل کرنا کارے دارد ہے۔کچی آبادیوں کی فطرت ہی شائد کچھ ایسی ہوتی ہے۔ کچی آبادیوں کے باطن میں ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ محض ٹوٹے پھوٹے خود رو سماجی ڈھانچے نہیں رہتیں بلکہ ایک مخصوص معاشرتی اور عمرانیاتی اکائی کی شکل حاصل کر لیتی ہیں۔اس ارتقائی عمل میں ریاست بھی قا نون سازی کے ذریعے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ تاہم اس کے باوصف اربابانِ ریاست کچی آبادیوں کو ریاست کا قدرتی حصّہ نہیں سمجھتے جس سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کچی آبادی کہتے کسے ہیں۔ اقوامِ متحدّہ کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ افرادکسی شہری علاقے میں ایک چھت کے نیچے رہائش پذیر ہوں اور انھیں مندرجہ ذیل پانچ میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ سہولیاتِ زندگی حاصل نہ ہوںتووہ slums کے رہائشی کہلائیں گے: ایک، پائدار رہائش گاہ جو موسمی سختیوں سے انسان کو محفوظ رکھے؛دو، معقول و مناسب مقامِ رہائش جس کے ایک کمرے میں تین سے زیادہ افراد ر ہائش پذیر نہ ہوں؛تین، پانی آسانی سے اور وافر مقدار میں دستیاب ہو؛ چار، ایک چالو نظامِ نکاس و صفائی موجود ہو؛ اور پانچ،مکینوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہوں اور انھیںبے دخل کرنے کا اختیارکسی کے پا س نہ ہو۔ کچی آبادیوں کے وجود میں آنے کی بنیادی وجوہات غربت، شہری آبادی میں بے ھنگم اضافہ، تیزرو صنعتی ارتقاء و ترقی اور تعلیمی پسماندگی ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں نے کچی آبادیوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ پنجاب میں پنجاب کچّی آبادی ایکٹ 1996، سندھ میں سندھ کچّی آبادی ایکٹ 1987، خیبر پختونخواہ میں خیبر پختونخواہ کچّی آبادی ایکٹ 1996اور بلوچستان میں بلوچستان کچّی آبادی ایکٹ 1987پاس کئے گئے۔ ان قوانین کے ذریعے پورے ملک میں مختلف آبادیوں کو کچّی آبادی قرار دیا گیا۔ اگرچہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں کچی آبادیاں موجود ہیں لیکن کراچی کا اورنگی ٹاؤن اس سلسلے میں خاص اہمیت کا حامل ہے جو آج سے تقریبا اٹھارہ سال پہلے قائم ہوا تھا ۔اس کی آبادی تقریبا 24 لاکھ ہے ۔یہاں ایک کمرے میںاوسطاًآٹھ سے دس افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس مخصو ص رہائشی ڈھانچے کی وجہ سے کرونا وائرس یہاں تباہ کُن تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اپنی مخصو ص ہیت کے سبب اورنگی ٹاؤن میں کرونا وائرس ضرور موجود ہو گا۔ اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔نمبر ایک اورنگی ٹاؤن کے مکینوںمیں اس بیماری کے حوالے سے موثر آگاہی مہم شروع کی جائے ۔اس سلسلے میںوہاں اثرورسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔نمبر دو حکومت ِپاکستان ڈاکٹرز کی خصوصی ٹیموں کو اورنگی ٹاؤن بھجوائے تاکہ وہ یہاں رہائش پذیر لوگوںکی ٹیسٹنگ کرسکیں اور جان سکیںکہ کرونا وائرس نے وہاں کتنے فیصد افراد کو متاثر کیا ہے ۔
نمبر تین اس آبادی کے قرب و جوار میں خصوصی طور پرQuarantine اور Isolation Centersقائم کئے جائیں۔Quarantine میں ان لوگوں کورکھا جاتا ہے جن کے بارے میں یہ شبہ ہو کہ وہ بیمار ہیں جبکہ Isolation Centers میںوہ لوگ ہوتے ہیں جن کہ بارے میں یہ تصدیق ہو چکی ہوتی ہے وہ بیمار ہیں۔مزید براں حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ کو اورنگی کے مکینوں کے علاج معالجے کے لیے علیحدہ رقم مختص کرنی چاہیے۔اسی طرح چاروں صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں واقعہ کچی آبادی کے مکینوں کے حوالے سے حرکت میں آجانا چاہئے۔ پاکستان کے154 ضلعوںکے ڈپٹی کمشنروں کو اپنے ضلعوں میں واقعہ کچی آبادیوں کے مکینوں کی تعداد اور ان کی حالت کے بارے میں مفصل رپورٹیں اپنی حکومتوںکے چیف سیکریٹریز اور سیکریٹریز ہیلتھ کو برا ئے کارروائی بھجوانی چاہئیں ۔ اگر پورے ملک سے کرونا وائرس کا خاتمہ ہو بھی جائے لیکن کچی آبادیاں غیر محفوظ رہیں تو یہ بیماری دوبارہ پورے ملک میں پوری قوت سے پھیل سکتی ہے۔

مزیدخبریں