رمضان المبارک کے پہلے پندرہ دن، یا اللہ رحم، یااللہ رحم!!!

زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ بابرکت رمضان المبارک ک آغاز ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حقیقی معنوں میں اس مبارک مہینے کے آغاز کی حقیقی رونق دیکھنے کو نہیں ملے گی، نہ وہ مبارکباد کا ماحول بنے گا نہ مساجد کی رونقیں بحال ہونگی ہیں نہ ہی وہ سحری اور افطاری کا روایتی رنگ دیکھنے کو ملے گا۔ اس سے زیادہ تکلیف بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ مبارک مہینہ جب دنیا بھر میں مسلمان اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے، گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے مساجد کا رخ کرتے ہیں، زکوٰۃ، صدقات اور مالی اعتبار سے کمزور افراد کی مدد کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج سے شروع ہونے والے رمضان المبارک میں ہمیں ان تمام چیزوں کی کمی نظر آئے گی۔ پاکستان میں تو یہ واحد مہینہ ہوتا ہے جب مساجد بھرجاتی ہیں۔ مشکلات کے باوجود خوشیاں ہوتی ہیں، سحری و افطاری کے موقع پر روزہ داروں کی خوشی و اطمینان دیدنی ہوتا ہے۔ اس رمضان میں ہم ان تمام روحانی مناظر سے بھی محروم رہیں گے۔ سب کو دکانیں کھلنے، منڈیاں کھلنے، کارخانے کھلنے، بازار کھلنے کی فکر ہے۔ ہمیں تو مساجد کے بند ہونے کا دکھ سب سے زیادہ ہے۔ جب ہم اللہ کی عبادت کے قابل ہی نہ رہیں، باجماعت قیام و رکوع و سجود کے قابل ہی نہ رہیں تو ان بازاروں، کارخانوں، منڈیوں، چائے و قہوہ خانوں، ہوٹلوں اور باغات کے کھلنے نہ کھلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔جہاں ہر وقت رحمتیں برستی ہیں، جہاں سجدے ہوتے ہیں اور اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اگر وہ مساجد ہی بند ہو جائیں تو ہمارے پاس نجات کا کوئی ذریعہ ہی نہیں بچتا ہے۔ ہم مساجد جاتے ہیں، گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اللہ سے باتیں کرتے ہیں، دکھ درد بانٹتے ہیں ایک دوسرے سے ملتے ہیں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ہے اس مرتبہ مساجد میں یہ سارے مناظر کم ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر ہم سوچیں تو ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل اور سختی کوئی نہیں ہے۔ کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان یہی ہے کہ ہم اجتماعی عبادات سے محروم ہوئے ہیں۔ دوسری طرف یہی نقصان ہمیں دوبارہ اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانے کا راستہ دے سکتا ہے۔ ہمیں زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔ ہمیں تحمل مزاجی دے سکتا ہے۔ ہمیں شکر کرنے کی طاقت بڑھا سکتا ہے۔ ہم نماز گھر پڑھیں اور مسجد جانے کی نعمت سے محرومی کو جاننے کی کوشش کریں تو سمجھنے میں آسانی ہوتی جائے گی کہ ہم عام دنوں میں مسجد کو کتنا نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ وہ اب لوگ جو خاص طور پر صرف رمضان میں ہی مساجد کا رخ کرتے ہیں وہ دیکھیں کہ سارا سال وہ رمضان کا انتظار کرتے رہے ہیں اور رمضان کی آمد پر مساجد میں بھی پابندیاں ہیں۔
آج رمضان کا آغاز ہو رہا ہے اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ آئندہ پندرہ دن بہت اہم اور بہت مشکل ہو سکتے ہیں۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کہتے ہیں کہ آئندہ پندرہ روز کے دوران عوام گھروں میں رہیں اور گھروں کو ہی عبادت گاہ بنا لیں۔ ہر طرف سے یہی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ وہ مبارک مہینہ جب تمام خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے فرزندان اسلام جوق درجوق مساجد کا رخ کرتے تھے انہیں گھروں میں رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں حکومت کو مکمل طور پر مساجد کو بند کرنا پڑے گا کیونکہ جس انداز میں ملک بھر سے ڈاکٹرز کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد متاثرین کی تعداد بڑھی ہے حکومت کو اخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ آرمی چیف نے ماہ مبارک میں سول اداروں کے ساتھ مل کر وسائل کو بروئے کار لانے بھی ہدایت کی ہے۔ افواج پاکستان کی طرف سے مشکل صورتحال میں انٹرنل سیکیورٹی الاؤنس بھی نہ لینے کا فیصلہ بھی خوش آئند ہے۔ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے معمول کی زندگی کی طرف بڑھنے کے لیے آئی ایس آئی بھی میدان میں ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم متعارف کرانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر ملک بھر میں ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم شروع کریں گے۔ جہاں کرونا ہو گا صرف اسے لاک ڈاؤن کیا جائے گا۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہمیں لاک ڈاؤن کے ساتھ کاروبار بند نہیں کرنے چاہییں تھے کرونا کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری بڑھی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم کاروبار کھولنے کی بات کر رہے ہیں۔ شعبہ صحت کے ذمہ داران ہاتھ جوڑ جوڑ کر لوگوں کو گھروں میں رکنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو ڈھونڈنا مشکل ہے تو یہ سوچ غلط ہے ایک ایسے ملک میں جہاں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہو، قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین ہوں، نچلی سطح تک سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا منظم نیٹ ورک موجود ہو اس ملک میں کسی کو ڈھونڈنا اور شناخت کرنا مشکل نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی سوچ اور فکر کے علاوہ دیگر لوگوں کی قابل عمل تجاویز پر غور نہ کریں تو یہی سمجھا جائے گا کہ جو آپ سوچ رہے ہیں اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ سب سے اہم انسانی جانوں کی حفاظت ہے۔ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد کرونا سے مرنے والوں کی تعداد سے بہت کم ہو گی۔ بھوک ختم کرنے کے لیے بہت سے ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں کیا آپ کے پاس کرونا سے موت کے منہ جانے کا کوئی راستہ موجود ہے یقیناً ایسا نہیں ہے تو آپ اس راستے کو کھول رہے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ اس آپشن پر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں جو آپ کے بس میں ہے۔
افواج پاکستان ہمیشہ کی طرح اس مشکل وقت میں بھی ملک و قوم کی خدمت میں نمایاں ہے۔ وزیراعظم خوش قسمت ہیں کہ تمام ریاستی ادارے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کسی بھی حکومت کو ہر طرف سے اتنا تعاون ملے پھر بھی وہ عوامی توقعات پر پورا نہ اترے تو یہ عوام کی بدقسمتی ہو گی۔
عوام کو اس مشکل سے کوئی نہیں نکال سکتا، آگے کرونا ہے پیچھے بیروزگاری ہے اور دائیں بائیں حکومت کی بدانتظامی اور ناکام حکمت عملی ہے۔ اللہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز ہے دعا ہے کہ اللہ اس رحمتوں والے مبارک مہینے کے آغاز میں ہمیں اس جان لیوا وائرس سے نجات عطاء فرمائے۔ دنیا بھر میں بچے بوڑھے، مرد و خواتین اس وائرس سے متاثر ہو رہے اللہ دنیا کو اس وائرس سے نجات عطاء فرمائے اور ہمیں سوچنے سمجھنے اور ہمیں واپس اپنی طرف مڑنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن