وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی برائے کرونا کے اجلاس میں کرونا وائرس کی سنگین ہوتی صورتحال کے پیش نظر کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم اجلاس میں مکمل لاک ڈائون کی تجویز مسترد کردی گئی۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شریک تھے۔ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فوج ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کیلئے پولیس کی مدد کریگی‘ ہم لاک ڈائون نہیں کر رہے مگر لوگوں نے احتیاط نہ کی تو ہمیں سب کچھ بند کرنا پڑیگا۔ انہوں نے کہا کہ کرونا کے مثبت کیسز میں اضافہ ہوتا رہا تو ہسپتالوں پر بوجھ بڑھے گا۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے ماسک استعمال کریں۔ انہوں نے باور کرایا کہ بہت کم لوگ ایس او پیز پر عملدرآمد کررہے ہیں اس لئے کرونا کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں آکسیجن کی کمی ہو گئی ہے‘ ہمارے ہاں ابھی ایسے حالات نہیں۔ اگر بھارت جیسے حالات ہوگئے تو ہمیں شہر بند کرنا پڑینگے۔ انکے بقول لوگ ان پر لاک ڈائون کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں مگر ہم لاک ڈائون اس لئے نہیں کررہے کہ اس سے غریب اور مزدور طبقہ متاثر ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ ستمبر 2019ء سے چین کے شہر ووہان سے شروع ہونیوالی کرونا وائرس آج عملاً پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکی ہے جس نے انسانی قدریں اور رہن سہن کا انداز تک تبدیل کر دیا ہے۔ اس موذی قدرتی وبا نے مستحکم عالمی معیشتوں کا بھی انجرپنجر ہلا دیا ہے جس کے باعث دنیا بھر میں کساد بازاری کے عفریت نے اپنے پَر پھیلائے ہیں اور بیروزگاری کے سونامی اٹھے ہیں۔ اس وائرس کی روک تھام کیلئے اٹھائے گئے احتیاطی اقدامات سے دنیا بھر میں صنعتوں کا پہیہ بھی جامد ہوا اور دوسرے شعبوں سے متعلق کاروبار بھی شدید متاثر ہوئے چنانچہ کئی ممالک کی معیشتیں عملاً دیوالیہ ہوگئیں۔ اس وائرس سے عالمی برادری کو ہونیوالے مالی نقصانات کا اب تک قطعی تخمینہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ نقصانات کھرب ہا ڈالروں پر مشتمل ہیں۔ دنیا میں اب تک کرونا کے مجموعی کیسز 14 کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں جو کسی بڑے ملک کی پوری آبادی کے برابر ہے جبکہ دنیا بھر میں اب تک کرونا وائرس سے 40 لاکھ کے قریب انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور صحت یاب ہونیوالے کرونا مریضوں کی مجموعی تعداد 9 کروڑ کے قریب ہے۔
بے شک چین اور روس کی ایجاد کردہ کرونا ویکسین مارکیٹ میں آچکی ہے جو مختلف ممالک میں بہت سرعت کے ساتھ لوگوں کو لگائی جارہی ہے مگر یہ ویکسین ابھی تک کرونا وائرس کے مکمل تدارک کی ضمانت نہیں بن سکی اور عالمی ادارۂ صحت کی متعین کردہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد میں نرمی اختیار کرنیوالے ممالک بالخصوص بھارت میں کرونا کے پھیلائو کی حالت انتہائی دگرگوں ہوچکی ہے اس لئے محض ویکسین کو کرونا سے خلاصی کا ذریعہ سمجھنا اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا کھلم کھلا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
ہمارے لئے کرونا وائرس سے عہدہ برأ ہونا اس لئے بھی بہت بڑا چیلنج ہے کہ ہماری معیشت مکمل لاک ڈائون کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمیں جزوی اور سمارٹ لاک ڈائون کے بھی اقتصادی کساد بازاری اور بے روزگاری کے سیلاب کی صورت میں نقصانات اٹھانے پڑے ہیں جبکہ ہماری معیشت ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ اگر کل کو کرونا کے زیادہ پھیلائو کے باعث ہمیں مکمل لاک ڈائون کی طرف جانا پڑا تو فی الحقیقت عوام بھوکے مر جائینگے اور عملاً زندہ درگور ہو جائینگے۔ اس وقت بھی ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جسے زندہ رہنے کی بنیادی ضرورتیں تک دستیاب نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہسپتالوں کی صورتحال بھی دگرگوں ہے جہاں ادویات اور ونٹی لیٹرز ہی نہیں‘ عام مریضوں کے بیڈز کی بھی سخت کمی ہے جبکہ آکسیجن سلنڈر سمیت بیشتر ہسپتال علاج معالجہ کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کرونا وائرس کے پھیلائو میں مزید وسعت پیدا ہو گئی تو ہمیں بھی بھارت جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑیگا جہاں آج کرونا کے مریض اور نعشیں سڑکوں‘ گلیوں‘ بازاروں میں بکھری پڑی نظر آتی ہیں جن کی تدفین اور جلانے کیلئے افرادی قوت اور دوسرے لوازمات بھی دستیاب نہیں چنانچہ سڑکوں کے کناروں پر لاشوں کے ڈھیر لگا کر انہیں جلایا جارہا ہے۔
آج کرونا وائرس کے پھیلائو کے معاملہ میں بھارت کا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہورہا ہے جہاں اب تک اس وائرس سے ایک لاکھ 87 ہزار اموات ہو چکی ہیں جبکہ کرونا کے متاثرین کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ کرونا کا پھیلائو دوسری دنیا کے مقابلے میں بہت کم رہا ہے تاہم جب بھی کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد میں ڈھیل ملتی ہے‘ اس وائرس کا پھیلائو بھی بتدریج بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ آج پاکستان میں کرونا سے ہلاک ہونیوالوں کی تعداد 16ہزار 842 ہو چکی ہے اور کرونا متاثرین سات لاکھ 84 ہزار تک پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے پڑوس میں جو صورتحال ہے وہ تو کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے چاروں جانب کی سرحدیں مکمل بند کرنے کی متقاضی ہے تاکہ پڑوسی ممالک سے کرونا کا کوئی مریض پاکستان آکر یہاں اسکے پھیلائو کا باعث نہ بن سکے تاہم ہم دوسری دنیا سے مکمل کٹ کر نہیں رہ سکتے بصورت دیگر ہماری معیشت دیوالیہ ہوئی تو اس سے ہونیوالے نقصانات کا تادیر ازالہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اسی تناظر میں مکمل لاک ڈائون سے گریز کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں جسے کامیاب بنانے کیلئے عوام کو بھی سخت احتیاطی اقدامات کے ساتھ زندگی گزارنے کا چلن اختیار کرنا ہوگا۔ ان میں بنیادی احتیاط فیس ماسک کا ہمہ وقت استعمال ہے۔ یہ پابندی صرف گھر سے باہر نکلتے ہوئے اور دوران سفر ہی نہیں کی جانی چاہیے بلکہ گھروں کے اندر اور دفاتر میں بھی فیس ماسک کا استعمال بنیادی ذمہ داریوں میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔
اس وقت سے بازاروں اور مارکیٹوں میں عید کی خریداری کا بھی آغاز ہو چکا ہے اس لئے ہمیں گزشتہ سال کے تلخ تجربے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جیسے ہی عید کی خریداری کیلئے مارکیٹوں میں آنے کی اجازت ملی‘ وہاں کھّوے سے کھّوا چھلتا نظر آیا اور پھر ہم پر کرونا کے پھیلائو کا سیلاب امڈ آیا۔ کرونا کی تیسری لہر تو پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہے اس لئے عید کی خریداری کے حوالے سے ایس او پیز کو حرزِجاں بنانا ازحد ضروری ہے بصورت دیگر کرونا وائرس ہمارے کنٹرول سے باہر ہو جائیگی اور انسانی زندگیوں کے لالے پڑ جائینگے۔ اگر ہم ایک باشعور قوم والا چلن اختیار کریں تو ہمیں احتیاطی اقدامات کیلئے کسی کے کہنے اور فوج طلب کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ ہماری جری و بہادر افواج تو بہرحال ملک کے دفاع کی ذمہ داری بھی بحسن و خوبی نبھاتی ہیں اور ہر قدرتی آفت کے موقع پر بھی وہ امداد و بحالی کے کاموں میں سول انتظامیہ اور عوام کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ اب عساکر پاکستان نے کرونا احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کرانے کا چیلنج بھی قبول کیا ہے جس میں وہ پہلے ہی کی طرح سرخرو ہوں گی تاہم کرونا سے بچائو کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے کی قوم کے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کریں اور حکومت کو کرونا کا پھیلائو روکنے کیلئے انتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور نہ کریں۔