اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پچھلے چھ ماہ کے دوران قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں ہونے والی بھرتیوں اور ترقیوں کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے ان بھرتیوں اور ترقیوں پر مشتمل رپورٹ آج سپیکر کو پیش کی جائے گی۔ ایک طلاع کے مطابق مبینہ طور پر سینکڑوں نہیں تو درجنوں گریڈ ایک سے پندرہ تک بھرتیاں قواعد و ضوابط کے برخلاف کی گئیں۔ نوائے وقت کو دستیاب دستاویزات کے مطابق جن افسران کو ترقی دی گئی ان میں سابق سپیکر کے قریبی عزیز طاہر قدیم کو گریڈ 18 سے 19، ڈائریکٹر ٹو سپیکر مشتاق کو گریڈ 19 سے20، محب علی پھلپوٹو ڈائریکٹر ٹو اپوزیشن لیڈر گریڈ 19 سے 20، سیکرٹری ٹو سپیکر سعید میتلا 20 سے 21، ڈائریکٹر ٹو ڈی جی نعمان شاہ گریڈ 19 سے 20، شیر دل خان کو گریڈ 20 سے 21 اور وسیم اقبال چودھری گریڈ 20 سے 21 میں ترقی دی گئی۔ دستاویزات کے مطابق قومی اسمبلی کے سیکرٹری بھی اس وقت کنٹریکٹ پر ہیں جبکہ جن افسران کو ترقیاں دی گئیں ان کی تفصیل بھی دلچسپی کی حامل ہے۔ دستاویزات کے مطابق گریڈ 21 میں ترقی پانے والے شیر دل خان 1985 میں بطور کلرک بھرتی ہوئے، ایم اے اسلامیات کی ڈگری رکھتے ہیں لیکن اس وقت ڈائریکٹر جنرل فنانس کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی جی ایچ آر ایڈمن اور JS-E کے عہدوں کا بھی اضافی چارج رکھتے ہیں۔ بطور ڈی جی ایچ آر/ایڈمن ان کی پھرتیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پی آئی پی ایس میں بھرتیوں کے لئے 11 اپریل کو امیدواروں کا تحریری امتحان لیا اور من پسند امیدوار کے 14 اپریل کو اپوائنٹمنٹ آرڈر بھی جاری کر ڈالے۔ اس کے علاوہ دیگر ترقی پانے والوں نے وسیم اقبال چودھری ہیں جن کی تعلیم صرف بی اے ہے اور انہوں نے زندگی میں ترقی کے لئے درکار کوئی کورس اٹینڈ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود انہیں گریڈ 21 میں ترقی دے دی گئی۔ ان کے بارے میں ایک یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ انہیں 12 مارچ 2019 کو گریڈ 20 دیا گیا تھا اور رولز کے مطابق اس گریڈ میں تین سال فرائض انجام دینا ضروری ہے لیکن اس رول کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک افسر سید شمعون اشرف بھی ہیں جن کے ریکارڈ میں گریڈ 18 میں ترقی کا کوئی ثبوت ہی موجود نہیں، وہ گریڈ 17 سے سیدھے گریڈ 19 کی منازل طے کر گئے۔ دستاویزات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ قومی اسمبلی کے ایک افسر مشتاق احمد، جو کہ خود بھی کنٹریکٹ پر ہیں نے 2015 میں اپنی بیٹی کو یومیہ اجرت پر اسمبلی میں بھرتی کروایا، 2016 میں مستقل کروایا اور اب ذیلی ادارے پپس میں گریڈ 17 میں تعینات کروا لیا ہے۔ قومی اسمبلی میں سابق سیپکر اسد قیصر کے دور میں بھرتی ہونے والے لیگل ایڈوائزر عبدالطیف یوسفزئی نے روزنامہ نوائے وقت کو اس حوالے سے تصدیق کی کہ ان سے سپیکر آفس کی جانب سے رابطہ کر کے رائے حاصل کی گئی تھی جس میں انہوں نے ان ترقیوں کے کیسز کی منظوری کے لئے پراسس مکمل کرنے کی رائے دی تھی تاہم چونکہ وہ خود نہ اس کمیٹی کے رکن ہیں اور نہ ہی انہیں خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا اس لئے وہ اس پر رائے دینے سے قاصر ہیں۔