درویش کا حجرہ اور بوئے نفس

Apr 25, 2022

 ایک لقمہ دانتوں تلے موجود ہو اور دوسرے لقمے کی طرف ہاتھ بڑھانا اللہ والے شرک گردانتے ہیں۔ لیکن کھڑی شریف کے عارف میاں محمد بخشؒ  کا فقر کچھ اور رنگ روپ کا تھا۔ وہ ایک لقمہ تناول فرمانے کے بعد فقر اختیاری کے تحت پانی ڈال کر سالن کو بے ذائقہ کرلیا کرتے تھے۔ فقر اختیاری اس لئے کہ وہ ایک حیثیت دار زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ خانقاہی نظام چلانے کے ساتھ ساتھ خاندانی زمینوں کی دیکھ بھال بھی کیا کرتے ۔ اپنی زمینوں سے حاصل ہونے والے غلے اناج سے غرباء ، مساکین کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ کے دور میں سکھوں اور انگریزوں کا سودی نظام اپنے عروج پر تھا۔ جس کی وجہ سے غریب آدمی سود خوروں کے چنگل میں پھنس کر رہ جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں آپ ضرورت مند غریب لوگوں کو بلا سود اناج عطا فرمایا کرتے تھے۔جنگل بیلے اللہ اللہ کرنا آسان ہے ۔ ہر رنگ کی مخلوق میں رہنا اور اپنے تسلیم و رضا کے رنگ کو مدھم نہ پڑنے دینا میاں محمد بخشؒ جیسے درویشیوں سے خاص ہے۔اُنہوں نے مجرد زندگی بسر کی ۔ دنیا کو قریب سے دیکھا ۔ مشاہدہ بہت تیز ہے۔ پھر یہی اُن کی شاعری ہے۔  
لوئے لوئے بھر لے کُڑیے جے تُوں بھانڈا بھرنا 
شام پئی بن شام محمد ؒتے گھر جاندی نے ڈرنا 
مگر شکاری کرے تیاری ، بار  چریندیاں ہرناں 
جو چڑھیا اُس ڈھیناں اوڑک ، جو جمیا اوس مرناں
موت انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور راز بھی۔ موت منزل ہے یا راستہ ؟اس کھوج میں بندہ اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ مسلمان صوفی تصوف کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اوّل شریعت ، دوئم طریقت اور سوئم حقیقت ۔ تیسرا مقام وہی ہے جہاں خدا بندے کی رضا پوچھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ’’ایجاب و قبول ‘‘ کا یہ وہی مرحلہ ہے،جب ہاتھ ہے اللہ کا ،بندہ ٔمومن کا ہاتھ والی کیفیت در آتی ہے۔ بشیر احمد ڈار کی تصوف پر لکھی کتاب کا عنوان ہی بڑا چونکا دینے والا ہے ’’تاریخ تصوف قبل از اسلام ‘‘۔ بشیر احمد ڈار تصوف کا قبل از مسیح تاریخ میں وجود بیان کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق یونانی فکر کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیانہ تصورات کا سب سے پہلارواج مغربی ایشیاء کے علاقہ سے شروع ہوا۔ اس کا بانی ایک افسانوی شخص آرمین تھا۔ آرمین کی تعلیم ساتویں یا چھٹی صدی قبل از مسیح میں تمام یونان میں پھیلی ۔ تصوف میں شروع سے ہی دو اجزاء شامل رہے ہیں انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا ذاتی تجربہ و مشاہدہ ۔ شاعر پنڈار پہلا یونانی مصنف تھا جس نے حیات بعد الموت کے آرمینی نظریات کی تبلیغ شروع کی۔ افلاطون نے بھی ’’جمہوریت‘‘ میں آرمینی نظریات کا ذکر کیا ہے۔ حضور اکرم ؐ کے ساتھ نبوت کا سلسلہ ختم ہوا لیکن اللہ اور بندے کے درمیان نامہ و پیام بدستور جاری رہا۔  
بات دل سے زباں پہ آتی ہے
بات دل میں کہاں سے آتی ہے
شاعروں کے ہاں اسے آمد کہتے ہیں۔ 
عطا ہر ایک پہ ہوتی نہیں کہ مالک کن 
چنیدہ لوگوں پہ رزق سخن اتارتا ہے
میاں محمد بخشؒ  کو عطائے رزق سخن کا یہ عالم تھا کہ عام حالات میںروز مرہ کے کلام کو بھی اکثرمنظوم انداز میں ارشاد فرمایا کرتے۔ اکثر خط منظوم لکھتے۔ گلہ شکوے کا انداز بھی منظوم ہوتا۔ ایک مرتبہ چندخواتین ان کے ہاں دعا کے لئے حاضر ہوئیں۔ ان کے شوہرجبری فوجی بھرتی کا شکار تھے۔ آپ نے انہیں تعویز لکھ کر دیا۔ تعویز ایک شعر کی صورت میں تھا۔ لوک ورثہ کے تحت شائع ہونے والی کتاب ’’ چٹھیاں‘‘ میں عجب ڈھب کا یہ شعر موجود ہے ۔محترم پروفیسر سعید صاحب اس شعر کو میاں محمد بخش کا کلام ماننے سے انکاری ہیں۔ اُن کی رائے میں یہ شعربے شمار دیگر اشعار کی طرح اُن سے منسوب ہے  ایسا اندازِ کلام صوفی کے مزاج کے منافی تھا ۔میاں محمدعمر بخشؒ کسی صوفی شاعر کو عطا کی گئی کلام کی جاذبیت فیضان نبوت ہی  سمجھتے ہیں۔ مرزا غالب بھی غیب سے مضامین کے آنے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ صریر خامہ(قلم سے لکھتے ہوئے پیدا ہونے والی سرسراہٹ) کو نوائے سروش (فرشتوں کے پروں کی گونج) قرار دیتے ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد عمر بخش کی لکھی کتاب ’’آفتاب کھڑی‘‘ کالم نگار کے سامنے پڑی ہے۔ ابھی اسے پڑھ کر فراغت پائی ہے۔ انتہائی محنت سے لکھی یہ کتاب  میاں محمد بخش کی مکمل سوانح حیات ہے۔ رہی اُن کی شاعری اس سے آنے والے وقتوں میں پڑھنے والوں پر معنی کے نئے نئے پرت کھلتے رہیں گے ۔ کھڑی شریف میں میاں محمد بخش کا حجرہ اُن کی بوئے نفس سے مہکتا رہتا ہے اور نیاز مندوں کا یہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ 
نہ تخت وتاج میں نہ لشکروسپاہ میں ہے 
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے

مزیدخبریں