کسی ریاست میں اختیارات کی جنگ چھڑ جائے تو یہ جنگ سرحد پر لڑے جانیوالی جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔اس لڑائی میں ہار جیت کسی کی بھی ہو لیکن نقصان ریاست، ملک اور قوم کا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے نظام میں ریاستی اداروں میں اختیارات کی ایک تثلیث ہے جس کے تحت ریاست کے تین ستون ہیں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ، آئین پاکستان میں ان تینوں ریاستی اداروں کے اختیارات متعین ہیں لیکن عدلیہ اور مقننہ میں پھر بھی اختیارات کی جنگ مختلف ادوار میں تاریخ کا حصہ بنتی رہی ہے۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ کہتی ہے کہ ہم عوام اور قوم کی نمائندہ آواز ہیں اور اس ملک میں عوام کی آواز کو ہی فوقیت حاصل ہو گی۔ پارلیمنٹ کا دعویٰ ہے کہ عدلیہ بھی پارلیمنٹ کی پیداوار ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے وہ آئین بنایا ہے جس کے تحت عدلیہ کا وجودہوا۔ اسی لیے پارلیمنٹ بالا دست ہے۔دوسری جانب عدلیہ کا یہ ماننا ہے کہ انصاف کی فراہمی کا عمل کسی بھی ریاست میں بنیادی اور مرکزی اہمیت کا حامل ہے اس لیے متفقہ آئین بنانے والوں نے آئین کے اندر ہی یہ لکھ دیا کہ عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو متاثر کرنے سے متعلق پارلیمنٹ کو کوئی اختیار یا حق حاصل نہ ہو گا۔ مزید یہ کہ عدلیہ کو عدالتی نظر ثانی کا اختیار بھی حاصل ہے جسے جوڈیشل ریویو کہتے ہیں اس اختیار کے تحت مقننہ یا انتظامیہ کا کوئی بھی اقدام بوجوہ جائز یا نا جائز قرار دیا جاسکتا ہے، اگر چہ آئین کے اندر درج ہے کہ پارلیمنٹ کی کوئی کارروائی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح سے آئین کے آرٹیکل نمبر 68 میں درج ہے کہ کسی جج کے کنڈکٹ کے اوپر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو گی لیکن اسکے با وجود یہ دونوں ادارے اختیارات کی تقسیم کے معاملے میں محاز آرا نظر آئے۔
انتظامیہ کے خلاف ایک کیس عدالت میں آیا کہ انتظامیہ آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے کیونکہ آئین و قانون میں درج مدت کے اندر اسمبلی کے انتخابات کرانے سے گریزکیا جا رہاہے۔ انتظامیہ چونکہ پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہوتی ہے اس لیے اس کیس کی سماعت سے عدالت کو روکنے کے لیے کچھ ایسی قانون سازی کر دی جس میں قاضی القضاء کے اختیارات کم ہو جانے تھے۔ بس اس پارلیمانی امر کو عدلیہ میں چیلنج کیا گیا اور عدلیہ نے اپنا جوڈیشل ریویو کا اختیار استعمال کرتے ہوئے اس مجوزہ نئے قانون پر عمل درآمد روک دیا۔ عدلیہ کے اس فیصلے کو پارلیمنٹ نے قطعی طور پر پسند نہیں کیا لیکن کیونکہ عدالتی فیصلہ پلٹا نہیں جا سکتا۔ اس لیے پارلیمنٹ نے اس کے خلاف ایک قرار داد منظور کر لی کہ ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے اسی مجوزہ قانون میں چیف جسٹس کا بنچ بنانے کا صوابدیدی اختیار بھی ختم کیا جارہا تھا۔ اسی لیے عدلیہ نے اپنے چیف جسٹس کے اختیار کا دفاع کیا لیکن ایک واضح تفریق سپریم کورٹ میں پیدا ہو گئی۔
الیکشن کیس کی سماعت کیلئے اولین طور پر نو جج صاحبان پر مشتمل بنچ بنایا گیا، جب دو جج صاحبان پر تنقید ہوتی تو انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو اس بنچ سے علیحدہ کیا، سات رکنی بنچ کے دو جج صاحبان نے مخالفانہ رائے کا اظہار کیا تو انکے بغیرایک نئے پانچ رکنی بنچ کی تشکیل کی گئی جس نے با قاعدہ کیس کی سماعت شروع کی۔ پانچ رکنی بنچ سے ایک جج صاحب نے بوجوہ معذوری ظاہر کی اور سماعت سے علیحدہ ہو گئے یوں ایک بار بنچ پھر ٹوٹ کر چار رکنی رہ گیا۔ یہ چار رکنی بنچ بھی جب فیصلہ کرنے کے قریب پہنچا تو ایک جج صاحب نے بتایا کہ انھوں نے ایک دوسرے بنچ میں کسی دوسرے جج صاحب کے ساتھ ایک فیصلہ صادر کیا ہے جس کے تحت ازخود نوٹسز کے مقدمات پر سماعت روک دی جانی تھی، سو وہ جج صاحب کسی دوسرے بنچ کے فیصلے کے نتیجے میں بینچ سے علیحدہ ہو گئے،اور نو رکنی بنچ سکٹر کر تین رکنی رہ گیا،بنچ کی اس تطہیر کا واضح مقصد کیس کی سماعت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرناتھا۔بس اسی تناظر میں نئی قانون سازی کی گئی کہ چیف جسٹس سے بنچ بنانے کا اختیار واپس لے لیا جائے کیونکہ پارلیمنٹ اور حکومت کا یہ قانون سازی کا منصوبہ ایسے وقت ہوا جب ان کا اپنا کیس عدلیہ میں زیر سماعت تھا اس لیے اس قانون سازی کو عدالت میں بد نیتی پر مبنی قانون سازی قرار دیا۔ عدالت نے بھی اسے عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔ معاملہ پھر پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا اور نا پسند فیصلوں کا توڑ کرنے کیلئے ایک اور قانون بنا ناشروع کر دیا گیا جس کے تحت سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے ایسے جج صاحبان پر مشتمل تشکیل دیا جائیگا جو فیصلہ دینے والے بنچ میں شامل نہیں رہے ہونگے۔ فی الوقت سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے پر نظر ثانی وہی جج صاحبان کرتے ہیں جنھوں نے اصل میں فیصلہ صادر کیا ہوتا ہے۔ نیا مجوزہ قانون سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کا توڑ کرنے کیلئے ایک نئی اور مشکل راہ دکھائے گا، اب دیکھیے کہ فی الوقت عدلیہ اس مجوزہ قانون کو کس نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ بہر حال یہ نیا قانون بھی عدالتی نظر ثانی کی زد میں آنا ہے۔
بالادست کون، پارلیمنٹ یا عدلیہ ؟
Apr 25, 2023