حالیہ قومی بحران اور فوج

پچھلے بدھ کو میں نے پاکستان کی دفاعی کمان کے بانی لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی کے انٹرویو کی بنیاد پر ایک کالم تحریر کیا تھا،جس میں قومی سلامی کونسل کے اعلامئے کا تجزیہ پیش کیا گیا۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جائے۔ میں جنرل مصطفی کی رہنمائی کا بے حد ممنون ہوں۔ 
ہر شخص کو واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ جب سے جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف کا منصب سنبھالا ہے تو تب سے فوج سیاسی آلائشوں سے بالکل دور رہی ہے۔فوج نے تب بھی غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کیے رکھی جب دو صوبوں کی حکومتیں ٹوٹ رہی تھیں اور بن رہی تھیں اور ملک میں سیاسی زلزلوں کے جھٹکے لگاتار محسوس ہو رہے تھے۔فوج کو سیاسی معاملات میں اس وقت زبر دستی گھسیٹا گیا جب دو صوبوں میں الیکشنوں کا غلغلہ برپا ہوا۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی کہ اسے سکیورٹی کیلئے خاطر خواہ عملہ میسر نہیں آ سکے گا۔تب سپریم کورٹ نے براہ راست فوج سے پوچھا کہ وہ اس بارے اپنی رپورٹ تحریری طور پر پیش کرے۔فوج نے سپریم کورٹ کے احترام میں اپنی رپورٹ بھجوا دی اور ساتھ ہی پیش کش کی کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو فوجی قیادت خود حاضر ہو کر سپریم کورٹ کو سکیورٹی کے خدشات اور الیکشن کیلئے فوج کی دستیابی کے معاملات پر بریفنگ دے سکتی ہے۔ میڈیا کے مطابق اس رپورٹ پر نظر ڈالے بغیر سپریم کورٹ نے اپنا نیا آرڈر جاری کر دیا۔اس اثناء ں سپریم کورٹ، حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان شدید تنائو پیدا ہو گیا۔ملک میں غیر یقینی کی صورتحال کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ انہیں قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر فوجی قیادت سے براہ راست بریفنگ لے لینی چاہئے۔قومی سلامتی کونسل کا یہ اجلاس منعقد ہوا اور اسکے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کی صورتحال سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ماضی کی حکومت نے دہشتگردوں سے براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے تھے اور انہیں پاکستان کے اندر داخلے کی کھلی اجازت دے دی گئی تھی۔پچھلے برسوں کی خبروں کیمطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں نے ماضی بعید کی طرح سرکاری اور غیر سرکاری افراد سے بھتے وصول کرنے شرع کر دیئے تھے۔پچھلے کئی برسوں سے دہشتگردوں نے اپنی خود کش وارداتیں بھی بڑھا دی تھیں۔چینی ورکروں پر حملے ہونے لگے ، بلوچستان کے طول و عرض میں بم پھٹنے لگے ،خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے حتیٰ کہ اسلام آباد میں بھی تباہ کن بارود سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑا گیا۔مغربی سرحد کے مورچوں پر متعین پاک فوج کے جوانوں اور افسروں پر افغان فوج بھی حملے کرنے لگی۔اس صورتحال کے پیش نظر فوج نے قومی سلامتی کونسل میں واضح کیا کہ دہشتگردی کی سنگینی سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور اس کو روکنے کیلئے ایک تیز رفتار آپریشن کرنا ہوگا۔اور انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر فوج کو مسلسل حرکت میں رہنا ہوگا۔اس اعلامیے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ فوج دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتی، اس لیے الیکشن ڈیوٹی کرنا اس کیلئے مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہو گا۔قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں یا اسکے اعلامیے میں کسی سیاسی نکتے پر بات نہیں کی گئی۔فوج نے محسوس کیا کہ اسے دہشت گردی کے سنگین مسئلے کے بارے میں قوم کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہئے۔چنانچہ پارلیمنٹ کے ایک ان کیمرہ اجلاس میں فوجی قیادت نے عوامی نمائندو ں پر واضح کیا کہ دہشت گردی کا سلسلہ کس خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قرآنی آیات کے حوالے بھی دئیے ،وہ ماشاء اللہ حافظ قرآن ہیں۔وہ قرآن پاک کو مشعل راہ سمجھتے ہیں،اس لیے انہوں نے عوامی نمائندوں کو بھی قر آن سے رجوع کرنے کیلئے کہا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اگر کوئی سیاسی بات کی تو وہ یہ تھی کہ قرارداد مقاصد کے مطابق حق حاکمیت عوام کو حاصل ہے اور وہ اسے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ عوا م کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ سب سے برتر ریاستی ادارہ ہے۔کوئی شخص چاہے تو ان الفاظ کو سیاسی معنی پہنا سکتا ہے لیکن یہ ایک اصولی بات ہے اور دنیا میں جہاں جہاں بھی آئین موجود ہے وہا ں پارلیمنٹ کو بر تر حیثیت حاصل ہے۔کیونکہ وہی قانون ساز ادارہ ہے ،کوئی دوسرا ادارہ قانون بنانے کا مجاز خیال نہیں کیا جاتا۔ اور نہ اصولی طور پر ہو سکتا ہے۔پارلیمنٹ کے اجلاس میں یہ فقرہ سن کر منتخب نمائندوں نے خوب ڈیسک بجائے کیونکہ آرمی چیف نے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 
ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا اور بعض ریاستی ادارے آپس میں بری طرح متصادم ہو رہے تھے کہ فوج کے چند نمائندے چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچ گئے۔اب یہ واضح نہیں کہ وہ از خود وہاں پہنچے یا انہیں وہاں مدعو کیا گیا تھا۔فوجی وفد سے بات چیت کے دوران چیف جسٹس نے بہتر سمجھا کہ وہ اپنے دو ہم خیال ججوں کو بھی ساتھ بٹھا لیں ،بعض عناصر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ فوجی نمائندے تین رکنی بینچ کے سامنے حاضر ہوئے تھے۔لیکن یہ کہنا ایک مبالغہ آرائی ہوگی اور امر واقع کو توڑ مروڑ کرپیش کرنے کی کوشش بھی۔کیونکہ اگر یہ کوئی پیشی تھی تو اس پر تین رکنی بنچ نے کوئی آرڈر جاری نہیں کیا ،مگر یہ بھی احتیاط کی گئی کہ اس ملاقات کے بعد کوئی اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ چند روز بعد فوجی ادارے کی طرف سے وزارت دفاع کے توسط سے سپریم کورٹ کے سامنے ایک استدعا پیش کی گئی کہ حالات کے پیش نظر چودہ مئی کے الیکشن ملتوی کیے جائیں۔اس درخواست پرایک معزز جج کی طرف سے یہ ریمارکس سامنے آئے کہ یہ تو نرا مذاق ہے۔بعد میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اپنا آرڈر جاری کیا تو اسکے آرڈر میں بھی یہ لکھا گیا کہ چودہ مئی کے الیکشن کا فیصلہ حتمی ہے اور اسکے التوا کی بات ایک مذاق ہے۔ان ریمارکس سے بعض لوگوں نے اندازہ لگایا کہ اب عدلیہ اور فوج کے درمیان بھی تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کیونکہ فوج بہر حال سکیورٹی کا ایک پیشہ ورانہ اور ماہر ادارہ ہے اور وہی بہتر جانتی ہے کہ الیکشن کیلئے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کو دہشت گردی کے آپریشن کو چھوڑ کر الیکشن کی ڈیوٹی پر مامور کرنا ممکن نہیں ہوگا۔تا دم تحریر سپریم کورٹ کے رویے میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کہ اس نے سیاسی جماعتوں کو مشاورت کیلئے طلب کر لیا ہے۔اب اس مشاورت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو ستائیس اپریل یا اس کے بعد سامنے آئیگا۔ماضی میں جب بھی کوئی دو ریاستی ادارے آپس میں ٹکرائے تو اس کیلئے ناگزیر ہوگیا کہ وہ ریفری بن کر حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ایوب خاں، ضیا ء الحق اور مشرف کے مارشل لاء قومی بحرانوں کا ہی نتیجہ تھے۔ایوب خان کے مارشل لاء کو قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے سیاستدانوں کی حرکتوں کا نتیجہ قرار دیا تھا۔جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے مارشل لاء پر قوم کے ایک بڑے طبقے نے حلوے بانٹے اور مٹھائیاں کھائیں۔ضیا ء الحق نے بھی بعض سیاسی جماعتوں کی مدد سے کابینہ بنا لی تھی اور صوبوں میںبھی یہی عمل دہرایا گیا۔جنرل مشرف کو با قاعدہ مسلم لیگ ق اور دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ماضی کے ہر مارشل لاء پر عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت معافی تلافی کا اعلان کیا تھا۔مشرف کو تو عدلیہ کی طرف سے بن مانگے آئین میں ترامیم کا حق بھی عدلیہ نے دے دیا تھا۔آج فوج اگر سیاسی بحران سے الگ تھلگ کھڑی ہے اور اس نے آگے بڑھ کر میرے ہم وطنوں کی تقریر نہیں کی تو اس کی ستائش کی جانی چاہئے اور وہ جس صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی داد دی جانی چاہئے۔جہاں تک سیاسی بحران کا تعلق ہے اسے سیاست دان مل بیٹھ کر حل کریں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...