رواں مالی سال میں پاکستان کو 7.76 ارب ڈالر کاملنے والا قرض

اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے دوران حکومت پاکستان کو ملنے والے قرض کی رپورٹ جاری کر دی جس کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا مارچ پاکستان کو مجموعی طور پر 7.76 ارب ڈالر کا قرضہ ملا جبکہ رواں مالی سال 22 ارب ڈالر سے زائد قرض کے حصول کا تخمینہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کی نسبت اس دوران 5 ارب ڈالر قرض کم لیا گیا۔ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 12.7 ارب ڈالر قرض لیا گیا تھا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب 94 کروڑ ڈالر قرضہ فراہم کیا جبکہ عالمی بینک نے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد کا قرض دیا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو 1 ارب 16 کروڑ ڈالر سے زائد کا قرض ملا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو 88 کروڑ ڈالر سے زائد کا قرض دیا اور 78 کروڑ ڈالر سے زائد رقم تیل کی سہولت کیلئے دی، سعودی عرب نے 10 کروڑ ڈالر پراجیکٹ فنانسنگ کی مد میں فراہم کئے ۔ 
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے جتنی رقم لینے کیلئے تگ و دو کررہا ہے ‘ رواںمالی سال میںمختلف مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے پاکستان کو آئی ایم ایف سے ملنے والی6 ارب ڈالر کی مجموعی رقم سے زیادہ رقم مل چکی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے‘ پیشگی اقدامات کرنے کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کو ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط دینے پر آمادہ نہیں ہو رہا اور اس سے مزید ڈومور کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو رواں مالی سال میںجولائی تا مارچ مجموعی طور پر 7.76 ارب ڈالر کا قرضہ مل چکا ہے تو حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط قبول کرنے کی کیا مجبوری لاحق ہے۔ اسکی ناروا شرائط کے باعث ہی ملک بدترین مہنگائی کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے جبکہ عوام کی مشکلات میں الگ اضافہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 7.76 ارب ڈالر کا قرض ملنے کے بعد آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنے سے انکار کرکے اس سے خلاصی کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جاتا مگر حکومت اب بھی اسکے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔7.76 ارب ڈالر چونکہ آئی ایم ایف سے ملنے والی مجموعی رقم سے زیادہ ہے‘ اس لئے حکومت کو اس قرض کی تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ رقم کہاں ہے اور بدترین مہنگائی میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے اس قرض کی رقم کو کیوں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ ا س وقت عام آدمی کیلئے تن و تنفس کا رشتہ قائم رکھنا عملاً مشکل ہو چکا ہے۔ حکومت کو اپنی تمام تر توانائی آئی ایم ایف کو منانے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنی چاہیے اور اسے ہر ممکن ریلیف دینے کا سوچنا چاہیے۔ عوامی مشکلات کو دور کرکے ہی حکومت انتخابات کیلئے عوامی رابطوں کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن