*روزہ،رحمت اور زحمت* 

Apr 25, 2023

غلام شبیر عاصم

کالم:لفظوں کا پیرہن 

تحریر:غلام شبیر عاصم 

ایک بات،ایک نقص،ایک نکتہ سمجھ میں نہیں آتا کہ"ایک نقطے نے محرم کو مجرم بنادیا" والی بات ہے،کہ جب بھی ماہ رمضان آتا ہے۔ہم لفظ رحمت میں"نقطہ"کی ملاوٹ کرکے"زحمت"بنا دیتے ہیں۔گویا رمضان میں ملاوٹ کا سلسلہ اتنا عام ہوجاتا ہے کہ رحمتوں کے اس مہینے میں رحمت کے بجائے شدت سے زحمت کا احساس ہونے لگتا ہے۔المیہ ہے کہ ہم نے اپنے کالے کرتوتوں کے باعث رمضان کو ملاوٹ اور زحمت کا مہینہ بنادیا ہے۔ابھی تو گزرا ہے ماہِ رمضان سب نے مشاہدہ کیا ہوگا۔ملاوٹ،اخلاقی گراوٹ،نام نہاد مسلمانیت کی بناوٹ،نفسِ امارہ کی خواہشات کے پیچھے بھاگم بھاگ میں ہم نے تھکاوٹ ہی دیکھی ہے۔خالص تقویٰ تو خال خال ہی محسوس کیا گیاہے۔گلیوں بازاروں میں اور دکانوں پر مشاہدہ کرنے سے دل و دماغ میں یہی خیال آتا رہا کہ خدا جانے شام تک کس خوش قسمت کا روزہ"بے ایمانی و بے حیائی کی سجی ہوئی مقتل"سے بچ کر مقام قبولیت حاصل کرسکے گا۔اللہ پاک فرماتے ہیں کہ روزہ کا مقصد،نتیجہ اور منزل تقویٰ ہے۔لیکن ہمارے ہاں تو تقریباً 70 فیصد لوگ فقط بھوک اور پیاس ہی جھیلتے ہیں۔جن میں 50 فیصد خواتین ہیں۔جو سرِ بازار سرِعام بے پردہ گھومتی پھرتی ہیں۔حتٰی کہ توبہ نعوذ بااللہ جسمانی سجاوٹ،بناوٹ اور دکھاوٹ سے دعوتِ گناہ دیتی پھرتی ہیں۔روزہ کے فلسفہ و مقاصد کے تناظر میں دیکھیں تو ایسے لوگوں کا روزہ سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں۔ماہِ رمضان کی بنیاد اور مقصد دراصل تقویٰ کا قیام و نفاذ ہے۔ماہ رمضان میں خاص کر 28،29 ویں روزہ سے،چاند رات اور پھر عید کے روز تو خاص کر خواتین تقویٰ کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ماہ صیام گزر گئے مگر معاشرہ میں تبدیلی نہ آسکی۔ہم نے رمضان کی تربیت سے دیرپا نتائج حاصل نہ کئے۔مساجد کے اندر تراویح میں قرآن پاک مکمل کیا جاتا ہے۔جسے بہت بڑا عمل اور کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔مگر40,45 فیصد حفاظ کرام کو بھی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ جو سورة یا آئیت تلاوت کررہے ہیں اس کا مفہوم اور مقصد کیا ہے۔گلی گلی میں ہر مسجد میں قرآن پاک مکمل کیا جاتا ہے،مگر تبدیلی تو رائی برابر دکھائی نہیں دیتی۔حالانکہ قرآن پاک کا نزول ہوا ہی تبدیلی کے لئے ہے۔تسبیح کے موتی گھماگھما کر ہم یہ حالت کردیتے ہیں کہ تسبیح کے موتی گِھس جاتے اور دھاگہ کمزور پڑ جاتا ہے مگر ہمارے دلوں پر ہٹ دھرمی،ہوس ولالچ اور بے ایمانی کی گِرہ ڈھیلی نہیں ہوتی۔بعض لوگ ہر نماز کے بعد 100 مرتبہ استغفراللہ کی تسبیح کرتے ہیں،مگر استغفراللہ کا وِرد اس وقت عبث ٹھہرتا ہے جب ہم عملی طور پر گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے۔کئے گئے گناہوں پر پشیمان ہوکر استغفراللہ کا ورد کیا جائے اور آئیندہ سے گناہوں سے اجتناب کی حتٰی الوسع کوشش کی جائے تو پھر اس وِرد کے ثمرات سامنے آسکتے ہیں۔مغربی ممالک تو ان وردوں کی تسبیح نہیں پڑھتے لیکن ان کا معاشرہ عملی طور پر بڑی حد تک ہمارے اسلام کے عین قریب نظر آتا ہے۔ہم سے زیادہ کامیاب،س±کھی اور خوشحال بھی وہی لوگ ہیں۔ہم ہیں کہ کتابِ ہدائیت قرآن پاک کو غلاف میں بند کرکے اس روشن کتاب کو اپنی جہالت اور لاپرواہی کے اندھیروں میں ایسے رکھ دیا ہے جس اس کی ضرورت ہی نہیں،غلاف پر جمی ہوئی دھول تک صاف کرنے کی فرصت نہیں۔اگر قرآن کھولتے بھی ہیں تو بس عام ثواب کی غرض سے عربی پڑھنے تک اکتفا کرتے ہیں۔حالانکہ تقاضا یہ ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور آیات سے عِلم و شعور اور ایمان و تقویٰ کی روشنی حاصل کی جائے۔قرآن پاک کی تعلیمات کو اپنے آپ پر نافذ کرکے اصلاح معاشرہ میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔مگر ہمارے اندر جالے اور دلوں کو تالے لگے ہوئے ہیں۔غور کریں تو ہم اکثر لوگ خدا پاک کی ناراضی کے طوق میں قید ہیں۔قرآن و نماز اور روزہ کی اصل مقصدیت سے دوری اسی وجہ سے ہے کہ ہم ابلیس کی رنگین چالوں اور ہتھکنڈوں میں پھنس کر خوشنودی خدا و رسول سے محروم ہوکر مرحوم ہوچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ روزہ کے تقاضوں کو کھانے پینے کی مخصوص پابندی کے علاوہ تمام زندگی لمحہ لمحہ ان تقاضوں کو اپنے آپ پر نافذ کریں تاکہ ہم واقعی متقی بن جائیں۔مسلمان کی گیارہ مہینوں کی عام زندگی اور رمضان کی ساعتوں میں صرف کھانے پینے کی پابندی کا فرق ہونا چاہئیے۔باقی عوامل میں ہروقت ہر ماہ ہمیں اپنے آپ پر روزہ کے تقاضوں کو نافذ رکھنا چاہئے اگر ایسا نہیں تو پھر ہماری روزانہ کی نمازوں کی قبولیت بھی مشکوک اور خطرہ میں ہوگی۔

مزیدخبریں