بہبود عید ملن پارٹی

سلمیٰ ہمایوں کا میسج کئی دن پہلے آیا کہ پیر والے دن22 اپریل 2024ء کو عید ملن پارٹی ہو رہی ہے سب بہنیں اکٹھی ہونگی تو گپ شپ کا مزہ آئے گا۔ سارا سال بہبود کیلئے ان تھک محنت کرتے کرتے رمضان شریف کے بعد ہر سال عید ملن پارٹی کا انعقاد ہوتا ہے لہٰذا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔
عید ملن پارٹی پنجاب کلب میں ہو رہی تھی۔ سلمیٰ ہمایوں جو کہ بہبود ایسوسی ایشن کی پریذیڈنٹ ہے اور میری سہیلی بھی۔ اس کے ساتھ بھی ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔
میں جب وہاں پہنچی تو سلمیٰ ہمایوں اور اس کی ایگز یکٹو ممبرز پہنچ چکی تھیں۔اس میٹنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ محو گفتگو تھیں۔ پنجاب کلب کے خوبصورت سجے سجائے نشات روم میں خواتین براجمان تھیں۔ آج کی محفل بہت خوبصورت تھی خواتین زرق برق لباسوں میں ملبوس۔ ان کے چہروں پر شادمانی جھلک رہی تھی سلمیٰ ہمایوں جیسے انسان اس عجیب و غریب دور میں کم ہی ملتے ہیں۔ اس کی کارگردگی اور محنت پر گھنٹوں بات ہو سکتی ہے۔ ہر عید پر کوئی نہ کوئی ایسا کام کرنے والا نظروں سے ضرور گزرتا ہے۔ ان میں سلمیٰ ہمایوں کا نام سرفہرست ہے۔ اس کی ٹیم کی خواتین بھی محنت، لگن اور بڑی جستجو کے ساتھ کام کرتی ہیں۔
کھانے سے پہلے میں نے سلمیٰ سے پوچھا بہبود کا ادارہ چلانا اور وہ بھی اتنے منظم طریقے سے مشکل تو لگتا ہو گا۔ اس نے جواب دیامیں نے ساری زندگی کوئی جاب نہیں کی تھی مگر میاں کے ساتھ جہاں بھی پوسٹنگ ہوتی میں جاتی اور فلاحی کام احسن طریقے سے کرتی تھی۔ مجھے فلاحی کام کرنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وہ احسن طریقے سے کر لیتی تھی۔ ہمیں   regulation rules andکے مطابق ہر کام کرنا چاہئے اگر ہم کریں گے تو جتنے بھی چھوٹے لوگ ہیں جو ان پڑھ ہیں، ہو سکتا ہے ہمیں دیکھ کر وہ بھی اس راہ پر چل پڑیں کیونکہ ہمیں  اچھے سسٹم کی بہت ضرورت ہے۔ کسی کو سکھانے کیلئے خود باعلم کرنا بہت ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو ہمارا نظام اچھا ہو جائے تو سوچیں ہم کتنی ترقی کریں گے۔
جیسا کہ تم نے پوچھا ہے کہ مہنگائی سے بہبود کے کاموں میں کوئی رکاوٹ تو نہیں آئی۔ اب سوچنا یہ ہے کہ ایک غریب کو اس مہنگائی کے دور میں کس طرح خوش رکھا جا سکتا ہے۔ اللہ کی ذات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کو خوش کرنے کیلئے خدمت خلق نہایت ہی اہم ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ مجھے خوش کرنا ہے تو میری مخلوق کو خوش کرو۔ میں یہ ضرور کہوں گی کہ جو کام اللہ کی خوشنودی اور اس کی مخلوق کے لئے نیک جذبے سے کئے جائیں وہ فوراً ہو جاتے ہیں کیونکہ اس میں اللہ کی بھرپور مدد ہوتی ہے۔
ہیلتھ اور تعلیم کیلئے اس مشکل گھڑی میں بھی لوگ خوب چندہ دیتے ہیں۔ باقی انکم جنریشن کیلئے سال میں تین دفعہ سیل لگواتی ہوں تو اس میں بھی ناکامی نہیں ہوتی۔ جہاں اللہ کی مدد ہو وہاں کسی قسم کی دشواری نہیں ہوتی۔ شاید نیکی کے کاموں میں اللہ قدم قدم پر بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
سلمیٰ کی گفتگو کے بعد عصمت خالد جو ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں لیکن وہ ہر فن مولا ہیں۔ بہبود میں صرف سلمیٰ کی مدد کرتی ہیں اور سیل کے دنوں میں بہت سے کام کڑھائی سلائی کے لڑکیوں سے کرواتی ہیں۔ آج وہ ایک خاکہ لکھ کر لائیں اور دوسرا اپنا تعارفی کالم پڑھ کر سنایا۔ ساری زندگی کافی مختلف کام کرتی رہیں اورساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا بھی شغف رہا۔
اس صورت حال میں اللہ سے دعا کرنی چاہیئے کہ ان غریب لوگوں کی مدد کرے۔ بندوں سے کوئی امید نہیں۔ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو کچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ اگر انسان کے اندر خدا خوفی ہے جیسے سلمیٰ ہمایوں اور اس کی ایگزیکٹو خواتین میں خدا خوفی ہے جو اس ادارے کو چلانے کیلئے ان تھک محنت کر رہی ہیں اور صاحب حیثیت لوگ چندہ نہ دیں تو یہ ملک کب کا تباہ ہو جائے۔ کچھ اچھے لوگ اس ملک میں بستے ہیں جو اس مہنگائی میں بھی چیریٹی دیتے ہیں اورجس کی وجہ سے ملک قائم دائم ہے۔
اب میں اپنی بہبود کی خواتین ممبرز جو نہیں آتیں تو ان کو ضروریہ کہوں گی کہ انہوں نے بہبود کو جوائن کیا ہے توان کا فرض بنتا ہے کہ بہبود میں آئیں اور بہبود کیلئے کام کریں۔ خدا کی خوشنودی حاصل کریں اور کام کرنے والی خواتین کو اللہ بہت اجر دے گا۔

ای پیپر دی نیشن