17نشستوں پر گزشتہ روز ضمنی انتخابات ہوئے اور حکمران جماعتیں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں۔ اس فتح سے لگتا ہے کہ عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی ہورہی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ عوام کی رائے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔ویسے تو ہمیشہ ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کو ہی فتح ملتی ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اقتدار کی فتح سے ہمارے علاقے کے کام ہوں گے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی شکست زیادہ معنی نہیں رکھتی لیکن خیبرپختونخواہ میں نشست ہار جانا معنی خیز ہے جس کی بنیاد پر لکھا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ ملک کی معاشی حالت میں نگران حکومت کے قیام سے بہتری آنی شروع ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح میں اضافے کی شرح کنٹرول ہوئی ہے جس سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی میں کمی آرہی ہے۔ نگران حکومت نے ملک کو بہترین انداز سے چلایا ۔ جب نگران حکومت آئی تو اسٹاک مارکیٹ 42ہزار انڈیکس پر تھی اور نگران دور حکومت میں اسٹاک مارکیٹ 56ہزار انڈیکس تک پہنچی اور اب ضمنی انتخابات کے بعد اسٹاک مارکیٹ تقریباً 72ہزار انڈیکس پر پہنچ چکی ہے جوکہ ملکی معاشی بہتری کی جانب نمایاں اشارہ ہے۔ اسی طرح ڈالر کی قیمتوں میں کمی سے بھی ملکی معاشی صورتحال کنٹرول میں آئی ہے۔ اب ضمنی انتخابات میں حکمراں جماعت کی فتح کے بعد مستحکم حکومت مناسب فیصلے کرکے مزید معاشی بہتری لاسکتی ہے۔ پنجاب میں کسانوں سے گندم 3000روپے من میں لی جارہی ہے حالانکہ حکومت نے 3900روپے من کا سرکاری اعلان کر رکھا ہے۔ کسان کو نہ تو باردانہ مل رہا ہے اور نہ ہی گندم کا پورا ریٹ۔ اسی لئے میں نے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کو خط بھی لکھا ہے کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر باردانہ کی فراہمی اور سرکاری ریٹ پر گندم کی خریداری یقینی بنائی جائے تاکہ کسان کو اسکی محنت کا ثمر مل سکے۔
ن لیگ کے کچھ رہنما جان بوجھ کر اپنی جماعت کے اقتدار کے تسلسل کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس میں انہیں ناکامی ہی ملے گی کیونکہ اب تک جتنے لوگ بھی ن لیگ سے الگ ہوئے ہیں ان کی عوام میں مقبولیت ختم ہوگئی اور وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوپائے۔ کوئی اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ اب تک وہ اپنی ذاتی شخصیت کی بنیاد پر منتخب ہوتا آیا ہے تو اس کی خام خیالی ہے۔ کسی بھی امیدوار کو ووٹ اس کی پارٹی وابستگی کی وجہ سے ملتا ہے۔ پارٹی کی وجہ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے اب پارٹی کے خلاف بیانات دیکر صرف اپنا ذاتی نقصان کر رہے ہیں جس سے مسلم لیگ ن پر کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آرہا اور عوام ان کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے۔
مستحکم حکومت ہی ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے ہورہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ ماہ سعودی ولی عہد شہزاد سلمان پاکستان کا دورہ کرکے سرمایہ کاری کے معاہدوں کو حتمی شکل دیں گے۔ حکومت پاکستان نے سعودی عرب کو پی آئی اے فروخت کرنے سمیت سرمایہ کاری کی کئی پرکشش پیشکشیں کی ہیں اور امید ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا جس سے ملک کی معاشی صورتحال میں انقلابی بہتری آئے گی۔سعودی عرب نے پاکستان کی ہمیشہ مشکل وقت میں مدد کی ہے۔ اب مشکل معاشی صورتحال میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری سے باہمی برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوگا اور ملک میں کاروبار میں بہتری آنے سے بے روزگار ی میں کمی کی توقع کی جارہی ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے دورے پر آئے جس کے دوران۔ ایران اور پاکستان کے مابین 8معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ ایران پاکستان کی تجارت کا حجم 10ارب ڈالر تک ہوجائے گا۔ ایران اور پاکستان کی سرحد پر خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر اور ترقی کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ ساتھ ویٹرنری‘ اطلاعات ‘ قانون‘ افرادی قوت سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدوں سے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان تجارت اور تعاون میں انقلابی اضافہ ہوگا۔ میں نے کئی بار اس بارے میں لکھا ہے کہ پاکستان کا مفاد پڑوسیوں سے تجارت میں پنہاں ہے اور پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان کو چاہئے کہ آئندہ 20سال تک جنگ نہ کرنے کا باہمی معاہدہ کرکے اسلحے کی دوڑ روکنے کا اعلان کریںاور باہمی تجارت کے معاہدے کرکے باہمی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عزم کریں۔ ایسا کرنے سے خطے میں انقلاب برپا ہوگا اور تمام ممالک اپنا دفاعی بجٹ کم کرکے اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرسکیں گے۔
پاکستان کے لئے ایران سے تجارت ہی سب سے فائدہ مند ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ پیٹرولیم‘ قدرتی گیس سمیت تمام ضروریات کے لئے ایران سے مال کے بدلے مال کے معاہدے کرے یا لوکل کرنسی میں تجارت کے معاہدے ہونے چاہئیں۔ اس طرح سے دونوں ممالک میں تجارت میں انقلابی تیزی آئے گی اور پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی جس سے ملک کی معیشت پر انقلابی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلے میں غیر ضروری عالمی دباؤ سے باہر آنا ہوگا اگر بھارت ایران سے تجارت کرسکتا ہے تو پاکستان پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ پرویز مشرف کے دور میں جس طرح پاکستان بحری جہازوں کے ذریعے خام تیل ایران سے درآمد کرکے 3ماہ کے کریڈٹ پر ادائیگی کرتا تھا۔ درآمد کئے گئے خام تیل کو اپنی مقامی ریفائنریز سے ریفائن کرکے مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے عوام کو فروخت کرتے تھے جس سے ہر ہر مرحلے پر حکومت پاکستان کو رائج ٹیکس ملتا تھا اور عوام کو معیاری پیٹرولیم مصنوعات ملتی تھیں۔ اب بھی ایران سے بائی روڈ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد بند ہونی چاہئے کیونکہ اس سے ملک کو ریونیو کا اربوں روپے نقصان ہورہا ہے اور عوام بھی غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات خریدنے پر مجبور کردیئے گئے ہیں۔ سمگلنگ کے بجائے سرکاری سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد ہی ملک کے لئے فائدہ مند ہے اور مقامی ریفائنریز و آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی بقاء کا ضامن ہے۔ سمگلنگ میں ہوشربا اضافے سے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور مقامی ریفائنریز بھاری مالی نقصانات کا شکار ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور ادارے ملکر ملک کو معاشی بہتری کی جانب لے جارہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد اپوزیشن کی جماعت کو بھی چاہئے کہ سیاسی عدم استحکام کی پالیسی ترک کرکے پارلیمنٹ کی حد تک اپوزیشن کا کردار ادا کرے اور سڑکوں کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو چاہئے کہ ملک کی خاطر اپنی پارٹی کے لوگوں کو ہدایت جاری کریں کہ انتخابی نتائج پر اپیلوں سمیت تمام امور کے متعلق قانون اور آئین میں درج طریقہ کار کو اختیار کریں اور کسی بھی قسم کے مظاہرے اور انتشار کی سیاست سے ملک کو معاشی نقصان ہوتا ہے۔ گزشتہ روز بھی کراچی میں احتجاج کے دوران عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اس طریقے کی سیاست سے ملک میں سرمایہ کاری پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لئے جماعت اسلامی طرز کے احتجاج کا طریقہ کار اختیار کیا جائے تاکہ احتجاج بھی ریکارڈ ہوجائے اور عوام کو بھی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
٭…٭…٭
ضمنی انتخابات کے بعد سیاسی صورتحال
Apr 25, 2024