عید پر میل ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں، مگر اس مرتبہ یہ معمول کچھ غیر معمولی ہو گیا۔ بہت سے دوست کئی دہائیوں بعد رابطے میں آئے۔ کچھ ایسے بھی جن سے رابطے کی کوشش کی تو پتہ چلا دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ سرمد جعفری صحافت دوپہر میں کولیگ تھے۔ ان کو عید کے بعد میسج کیا تو ان کے نمبر سے ان کی تربت دکھا دی گئی۔ ان کا ایک روز قبل انتقال ہوا تھا۔ سرمد جعفری روزنامہ آزادی کے چیف ایڈیٹر تھے۔ان کے دوست اشرف انجم سے بات کی وہ گوجرانوالہ میں ہوتے ہیں۔ وہ اس سانحہ ارتحال سے لا علم تھے۔ منیر جرمانوی ان کے کولیگ ہوا کرتے تھے۔پیج میکر منیر صاحب مریدکے سے سائیکل پہ کریم بلاک لاہور آیا کرتے تھے۔ آئے روز لیٹ آنے پر ان کو جرمانہ ہو جاتا توتخلص ہی جرمانوی پڑ گیا۔
اشرف قریشی کا بیس بائیس سال سے مستقر اسلام آباد میں تھا۔ ان سے گاہے بگاہے فون پر رابطہ ہو جاتا تھا۔ عید پر ان کو کال کی تو ان کے بیٹے اسامہ نے بتایا کہ وہ تین ماہ قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ پہلے اٹیک ہوا پھر برین ہیمبرج ہوگیا۔
پرانے دوستوں اور واقف کاروں کی سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش جاری رہتی ہے۔ کچھ مل بھی جاتے ہیں۔ ایک بار کوئٹہ گردی کا اتفاق ہوا تو وہاں سلیم قطری سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کا تعلق سرگودھا کے گاؤں دْھپ سڑی سے تھا ، شاید تحصیل بھلوال میں یہ گاؤں ہے۔ ان سے ملاقات 1984ء میں ہوئی یہ فوج میں سویلین تھے۔ ان کے ساتھ انہی کے گاؤں کا جمیل بھی ملا جو ایئر فورس کے کسی میس میں باورچی تھا۔ سلیم کا قطر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ چائے یا شربت قطرہ قطرہ کر کے پیتے۔ لہٰذا احباب انہیں قطری کہنے لگے۔کوئٹہ سے یاد آیا کہ مین کینٹ ایریا کی ایک پارک میں سیر اور سٹڈی کے لیے جایا کرتا تھا۔اس پارک میں بادام کے درخت در درخت تھے۔ انکے نیچے باداموں کے ڈھیر لگے ہوتے، کاغذی بادام مگر بہت ہی کڑوے۔
کل ہی شاہد اقبال خٹک کا فون آیا۔ انہوں نے مجھے دریافت کرنے کی کوشش کی۔ مجھے بھی ان کی تلاش تھی۔ ان کے توسط سے پرانے دوستوں کا ریلا امڈ آیا۔ خان بیگ، فلک ناز، کشور جاوید، وقاص، محمد سعید اور دیگر بھی۔ ان سے رابطہ تیس سال بعد ہوا۔
اب سے تھوڑی دیر قبل غلام علی صاحب کا فون آگیا۔ ان سے بھی آخری مرتبہ تیس سال قبل ہی ملاقات ہوئی تھی۔اشرف مغل صاحب گوجرانوالہ میں ہوتے ہیں اور ان سے فون پر کبھی کبھار رابطہ رہتا ہے۔ محمد فاروق اور حاجی امانت بہت سے دوستوں کے رابطہ کار ہیں۔ گوجرانوالہ میں ہی قدیم دوست رانا صاحب مقیم ہیں۔جوانی میں بڑی باتیں کیا کرتے۔ لمبی لمبی چھوڑا کرتے۔عید پر بتایا کہ ڈاکٹروں نے پاؤں کا انگوٹھا کاٹ دیا ہے۔ میں نے ترنت پوچھا زبان کے بارے میں ڈاکٹروں کا کیا کہنا ہے۔ان کا قہقہہ تو بلند ہوا لیکن چھوڑنے جتنا لمبا نہیں تھا۔
یسٰین وٹو ماہر علوم فلکیات تین چار سال قبل اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ آج بھی ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کی یادوں کی مہک آتی ہے۔ ڈاکٹر عظمت رحمٰن بھی کم و پیش اتنے ہی عرصہ پہلیدارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ گنگا رام اور جنرل ہسپتال کے ایم ایس رہے۔ ایران میں شہنشاہ ایران کے معالج رہے۔ ان کے والد حکیم تھے۔ انہوں نے بیٹے کو ڈاکٹر بنایا لیکن حکمت ان کو وراثت میں ملی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس نہیں کرتے تھے۔ کوئی مشورے کے لیے جاتا تو حکیمانہ نسخے تجویز کرتے تھے۔
رانا اسمٰعیل سے یاد اللہ بھی چار دہائیوں پر محیط ہے۔چیچہ وطنی میں ہوتے ہیں۔ سائنسی بنیادوں پر کاشت کاری کرتے ہیں۔کالا تیتر ان کا شوق اور پہچان بن گیا ہے۔ جہاں بھی جائیں تیتر والا پنجرہ ساتھ ہوتا ہے۔ چودھری محمد حنیف پاکپتن میں بابا فرید الدین شکر گنج کے مزار پر کئی مرتبہ لے گئے۔ان کے ڈیرے پر گگو منڈی سے ریاض احمد اور سمندری سے رانا الیاس بھی حاضری دیتے ہیں۔
میری اپنی عمر 65سال ہونے کو ہے۔ پرائمری کے اساتذہ میں سے اب بھی شوکت صاحب جسلانی والے سے رابطہ ہے۔ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر مرزا اقبال محمد بیگ لاہور ہی میں ہوتے ہیں۔ ان سے نیاز مندی ہے۔ خالد لطیف خالد بھی چھٹی سے میٹرک تک مختلف سبجیکٹ پڑھاتے رہے۔ وہ شور کورٹ میں ہوتے ہیں ، ہر عید پر آپ کا مبارک باد کا فون آتا ہے۔ چند ماہ قبل ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اقبال صاحب کو دل کا مسئلہ ہوا۔ پی آئی سی میں دو ماہ کی تاریخ ملی۔ ڈاکٹر احمد سلیم صاحب سے بات کی تو دوسرے روز جناح ہسپتال سے سٹنٹ ڈل گیا۔ اقبال صاحب نے اصرار کیا کہ ہر صورت وہ گفٹ دینا چاہتے ہیں اور چوائس ہمارے اوپر چھوڑ دی۔ اصرار بڑھا تو جائے نماز اور تسبیح کی ڈیمانڈ کر دی۔ خالد لطیف خالد نے جو اخلاقیات اور آداب سکھائے وہ آگے اپنے طلباء کو ٹرانسفر کر دیئے۔ مجھے استاد کہنے والوں کی تعداد شاید ہزاروں میں ہو۔ ’’ایہہ بڑا استاد اے‘‘۔ ایسا بھی کچھ کہتے ہونگے۔چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی کلاس پڑھائی جس میں کچھ بزرگ سٹوڈنٹ بھی تھے۔
اب جبکہ میں آرٹیکل کی نوک پلک درست کر رہا ہوں تو وٹس ایپ گروپ میں رحیم شاہ کی رحلت کی خبر بلنک کرنے لگی۔رحیم شاہ سے بھی ملاقات 27 اٹھائیس سال قبل ہوئی تھی۔ ڈیسنٹ اور ڈیووٹڈ کو لیگ تھے۔گزشتہ دنوں گاؤں میں ایک فوتگی پر حاجی عبدالغنی سے 54 سال بعد ملاقات ہوئی۔ عبدالغنی تیسری کلاس میں گاؤں سے ننکانہ صاحب شہر چلے گئے تھے۔ آجکل بلدیاتی سیاست بھی کرتے ہیں۔
کئی لوگوں کا خلا پر نہیں ہوتا ان میں سے ایک مجید نظامی صاحب بھی ہیں۔ وہ اخلاقیات کا بھی اعلی نمونہ تھے۔ ان کے ساتھ کئی سال روزانہ ادارتی میٹنگ ہوتی رہی۔ بہت سے معاملات میں جمیل اطہر قاضی اور مجیب الرحمن شامی میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ ضیا شاہد زندگی کے آخری ماہ و سال میں بک رائٹنگ کی طرف زیادہ مائل ہو گئے تھے۔ جب بھی علامہ عبدالستار عاصم کے ادارے قلم فاؤنڈیشن کی شائع کردہ نئی کتاب آتی مجھے بھی بھجواتے۔ضیا شاہد نظامی صاحب کا مرشد کی طرح احترام کرتے تھے۔
حرف آخر: زندگی کا سفر کٹ رہا ہے. آخری منزل کا سب کو علم اور یقین بھی ہے۔ اجمل نیازی کہا کرتے تھے کوئی نہیں کہتا کہ کبھی نہیں مرنا مگر ہر کوئی سمجھتا ہے ابھی نہیں مرنا۔