غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست کی دہشت گردی جاری ہے اور گزشتہ ساڑھے چھے مہینے سے زائد عرصے کے دوران ہزاروں معصوم اور نہتے افراد کو بے دریغ شہید کیا گیا ہے جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ دہشت گردی کی اس بدترین شکل کے لیے امریکا اور برطانیہ اسرائیل کو ہر طرح کی مدد فراہم کررہے ہیں، یعنی ایک طرف اقوامِ متحدہ میں سفارتی سطح پر اس کی اعانت کی جارہی ہے تو دوسری جانب اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر کے اسے مزید دہشت گردی کے لیے لائسنس دیا جارہا ہے۔ کئی خلیجی ممالک میں امریکا نے اپنا ڈیفنس سسٹم نصب کررکھا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اگر اسرائیل پر حملہ کرنا چاہے تو اس کا دفاع یقینی بنایا جاسکے۔ وہ خلیجی ممالک جن کے ہاں امریکا نے اپنا دفاعی نظام نصب کیا ہے، اس جنگ میں واضح طور پر اسرائیل کے ساتھی ہیں، خواہ ان کی مذہبی شناخت کچھ بھی ہو۔
دنیا بھر میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑے مظاہرے ان ملکوں میں ہورہے ہیں جو اسرائیل کی سب سے زیادہ حمایت کررہے ہیں۔ لاکھوں افراد کے احتجاج کے باوجود امریکا اور یورپی ممالک ابھی تک کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ جن ممالک میں افراد اپنے حقوق سے باخبر ہیں اور ان کے لیے لڑنے کا ڈھنگ جانتے ہیں وہاں بھی حالات ان ترقی پذیر ممالک سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جہاں عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ فرق ضرور ہے کہ ترقی پذیر ممالک اور بالخصوص مسلم ملکوں میں فلسطینی عوام کے حق میں اس قسم کے مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے جیسے کہ مغربی ممالک میں ہوئے ہیں اور وہاں عوام نے جس تسلسل کے ساتھ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
پاکستان میں کچھ مذہبی جماعتوں نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینے کے لیے غزہ کے حق میں کچھ مظاہرے کیے اور اس کے بعد ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئیں۔ اب سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی محترمہ حمیرا طیبہ نے اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف سیو غزہ کیمپین (Save Gaza Campaign) کا آغاز کیا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد مہم ہے۔ منفرد اس لیے کہ حمیرا صاحبہ جس تسلسل کے ساتھ اسے لے کر چل رہی ہیں ایسا ہمارے ہاں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے اور جس طرح اسے سیاسی وابستگی سے الگ کر کے چلایا جارہا ہے ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے۔ حمیرا طیبہ سابق سینیٹر مشتاق احمد کی اہلیہ ہیں اور مذکورہ مہم کے لیے انھیں اپنے شوہر کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ اس مہم کے مقاصد درج ذیل ہیں:
۱۔ غزہ میں جاری اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جائے،
۲۔ پاکستان بین الاقوامی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کے مقدمے کی حمایت کرے،
۳۔ پاکستان کی طرف سے ان تمام ممالک کے سفیروں کو مراسلے بھیج کر اظہارِ ناراضی کیا جائے جو اسرائیل کے حامی ہیں،
۴۔ زخمیوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، اور
۵۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں اسرائیل پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔
ان مقاصد کو لکھ لینا یا ان کے بارے میں بات کر لینا تو بہت آسان ہے لیکن ان کا عمل کے سانچے میں ڈھلنا جوئے شیر لانا کے مترادف ہے۔ اندریں حالات، ممکن ہے حمیرا صاحبہ اور ان کے ساتھی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکیں لیکن وہ جس خلوص اور صدق کے ساتھ اپنے حصے کا کردار ادا کررہے ہیں وہ لائقِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ تحریک جن لوگوں کے حقوق کے لیے چلائی جارہی ہے وہ خود پوری دنیا میں مزاحمت کا بے نظیر استعارہ بن چکے ہیں اور ہر گزرتا دن یہ ثابت کررہا ہے کہ باطل کے مقابلے میں حق کے پرستار نہ تو قربانیاں دینے سے کتراتے ہیں اور نہ ہی پسپائی اختیار کرتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے مظالم سہتے بچوں کی ویڈیو پیغامات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کے سارے حکمران مل کر بھی عزم و ہمت میں ان میں سے کسی ایک کے برابر بھی نہیں ہوسکتے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غزہ کے معصوم اور نہتے لوگوں کے حقوق کے لیے چلائی گئی مہم کے سلسلے میں حکومت منتظمین سے کچھ نہ کچھ تعاون کرتی لیکن ہویہ رہا ہے کہ 13 نومبر 2023ء کو اپنے آغاز سے لے کر اب تک اس مہم کے چلانے والوں کو کئی بار حکومت کی طرف سے سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال سے پتا چلتا ہے کہ ہماری حکومت امریکا کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، اور امریکا ہر سطح پر اسرائیل کی دہشت گردی کے تحفظ کے لیے ڈھال بن کر کھڑا ہے۔ لیکن آخر میں یہی دیکھا جائے گا کہ جب حق اور باطل کے مابین کشمکش و کشاکش جاری تھی تو حق کے ساتھ کون کھڑا تھا اور باطل کے ساتھ کون۔ یوں حمیرا طیبہ صاحبہ اور ان کے تمام ساتھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس معرکے میں وہ ذاتی اور گروہی مفادات سے بے نیاز ہو کر حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔