ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان پر امریکا کی جانب سے ردعمل سامنے آ گیا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاک ایران تجارتی معاہدوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے، تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے، اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان توقعات سے بڑھ کر زیادہ کامیاب رہا۔پاکستان میں اپنی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے ایرانی صدر کی طرف سے ایک جلسہ عام سے خطاب کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا لیکن ایسا بوجوہ ممکن نہ ہو سکا مگر ان کی یہ خواہش کوئی انوکھی اور منفرد بھی نہیں تھی۔ دیگر ممالک کے سربراہان پاکستان آتے ہیں تو بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی جلسہ عام سے خطاب کرے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کی ایک عمومی روایت ضرور چلی آ رہی ہے البتہ 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر لیبیا کے صدر کرنل قذافی کی طرف سے لاہور میں ایک عوامی جلسے سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں خطاب کیا گیا تھا۔اس جلسے میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔اس کے بعد اس سٹیڈیم کا نام قذافی سٹیڈیم رکھا گیا تھا۔ ایرانی صدر کی اسلامی ممالک میں توقیر میں اس لیے بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ اسرائیل نے شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کر کے دو ایرانی جرنیلوں سمیت 17 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ایران کی طرف سے اس کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل گرائے گئے۔صدر ابراہیم رئیسی اگر پاکستان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کا استقبال کرنے امڈ آتا۔
ایرانی صدر کے دورے کے دوران پاکستان اور ایران نے سکیورٹی، تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، ویٹرنری ہیلتھ، ثقافت اور عدالتی امور سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لئے 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ایرانی صدر کا پاکستان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔اپنے دورے کے دوسرے روز انہوں نے لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر اور اسی روز کراچی میں قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی۔ ان دو شہروں میں بھی صدر رئیسی کا پرتپاک خیر مقدم ہوا۔ ابراہیم رئیسی کے دورے کے دوران جس طرح دو طرفہ معاہدے ہوئے، تجارت کے حجم کو 10 ارب تک بڑھانے پر اتفاق کیا گیا اور جس طرح ان کا استقبال ہوا اس سے ایران اور پاکستان جو پہلے بھی ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے، مزید قریب آگئے۔فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستان اور ایران کا یکساں موقف ہے۔
ایرانی صدر اسلام آباد سے لاہور پہنچے تو شہر کی اہم شاہراہوں کو خیرمقدمی بینرز سے سجایا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا استقبال کیا۔انہوں نے علامہ اقبال کے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ وہ گورنمنٹ کالج بھی گئے۔ان مواقع پر گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا تعلق ہے، پاکستان آکر خوشی ہوئی، یہاں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا، ہم غزہ سے متعلق اصولی موقف پر پاکستان کو سراہتے ہیں۔ پاک ایران دوستی کوہ ہمالیہ سے بھی بلند ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا تعلق ہے، میں پاکستان کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔بعدازاں کراچی پہنچنے پر ایرانی صدر کا گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے استقبال کیا۔
پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے اس لئے اپنے سود و زیاں کا پاکستان بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔امریکہ کی طرف سے اس دورے کے حوالے سے دھمکی آمیز لب و لہجے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے وہ قطعی بے جا ہیں۔گو ایران پر امریکہ کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن کیا ان پابندیوں پر عمل کرنا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے؟ چین سمیت کئی ممالک کو آج بھی ایران پیٹرولیم مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ گزشتہ سال پیٹرولیم کی برآمدات میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔بھارت کے ساتھ ایران کے کئی معاہدے رو بہ عمل ہیں۔گزشتہ سال تجارتی حجم 48 فیصد اضافے کے ساتھ 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
آج پاکستان کو انرجی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔بجلی اور گیس کی کمی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور براہ راست پاکستان اور ایران کی کوئی مخالفت نہیں ہے لیکن گیس پائپ لائن سمیت کئی معاہدوں پر پاکستان امریکہ کی وجہ سے عمل کرنے سے قاصر ہے۔اگر امریکہ کی پابندیاں آڑے نہ آتیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر پاکستان میں گیس کی ضروریات کو پوری کر رہا ہوتا۔ایران پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کی بھی پیشکش کر چکا ہے۔اگر ایران سے پیٹرولیم کی سمگلنگ کو ریگولیٹ کر کے تجارت کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو پاکستان میں تیل کی قیمتیں آج کے مقابلے میں ایک چوتھائی پرآ سکتی ہیں۔امریکہ جب پاکستان کو ایران سے تعلقات کے حوالے سے ڈکٹیٹ کرتا ہیتو کیا وہ پاکستان کو وہی سہولیات دے سکتا ہے جو ایران کی طرف سے پاکستان کو ممکنہ طور پر فراہم کی جا سکتی ہیں۔اس کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے۔امریکہ پاکستان کو اس ریٹ پر پیٹرولیم مصنوعات فراہم کر دے جس پر ایران پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہیتو پاکستان کے توانائی کے مسائل ضرور کم ہو سکتے ہیں۔
پاکستان ایران فروغ پاتے تعلقات امریکہ سمیت تمام الحادی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ملکی اور قومی مفادات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائیں۔ اسرائیل اور بھارت کی سرپرستی کر کے امریکہ علاقائی امن و سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کو اب مصلحتوں کا لبادہ اتار کر یکجہت ہو جانا چاہیئے۔اسلامک بلاک آج وقت کی ضرورت ہے۔
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان پر امریکہ کے بیجا خدشات
Apr 25, 2024