اسلام آباد (وقائع نگار) ہائیکورٹ نے لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی جبکہ جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے ہیں کہ جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں، وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں، جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے بازیاب ہونے والے لاپتا افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، یہ واضح ہے کہ سٹیٹ عدالتیں کسی دہشت گرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورا کوئی اقدام ہوتا ہے، پولیس جیسی بھی کارروائی کرتی ہے، اس کو تو ہم دیکھ لیتے ہیں ٹھیک ہوئی یا نہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پولیس والوں کو تو آرام سے معطل کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جو کرتے ہیں سب کے سامنے کرتے ہیں، کیا ایجنسیز میں کوئی جواب دہ ہے، خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے؟۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جو ادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہو جاتے ہیں جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کو ریگولیشن کیا جائے۔ پولیس تمام اداروں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ کارروائی سب کے سامنے کرتے ہیں، ٹھیک ہو یا غلط۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت وزارت دفاع سے پوچھ کر بتا دیں ایجنسیز کے اندر کیا خود احتسابی کا عمل ہے؟ مزید کہا کہ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جواب دہ نہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی دہشت گرد ہے تو پرچہ دیں، کارروائی کریں لیکن ماورائے عدالت کارروائی نا کریں۔