اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + خبر نگار) وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایت پر گندم کی فوری خریداری شروع کرنے اور خریداری کے اہداف میں اضافہ کیلئے صوبائی وزرائے اعلی کو خطوط ارسال کئے گئے ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو قومی اسمبلی میں گندم کی خریداری اور اہداف کے حوالہ سے مختلف اراکین کے نکتہ ہائے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب اور سندھ میں گندم کی زیادہ فصل کاشت ہوتی ہے، گندم پاکستان کی سٹیپل فوڈ ہے اس لئے حکومت اس اہم فصل کی امدادی قیمت مقررکرتی ہے تاکہ گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ یہ بات درست ہے کہ جن کسانوں کیلئے سبسڈی مقررکی جاتی ہے ان کو نہیں ملتی۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ اس وقت گندم کا کیری فارورڈ سٹاک چار اشاریہ ایک ملین ٹن ہے جوحکومت پر بوجھ ہے اور اس کی وجہ سے اہداف آگے پیچھے ہو گئے، گندم کی خریداری صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، تمام صوبوں میں گندم کی خریداری کے اہداف نیچے چلے گئے ہیں، صوبائی حکومتیں مجموعی پیداوار کا 25 فیصد خریدتی چلی آ رہی ہے۔ اس وقت فوری خریداری نہ ہونے کی وجہ موسم کی وجہ سے پیدا ہونے والی نمی ہے۔ وفاقی حکومت صرف پاسکو کے ذریعہ گندم خریدتی ہے جو سٹرٹیجک ذخائر اور مسلح افواج کیلئے ہوتی ہے، پاسکو کا اپنا ہدف ہوتا ہے جو مجموعی ہدف سے بہت کم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے تمام وزرا اعلی کو لیٹر لکھ دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ گندم کی خریداری کے اہداف کو بڑھانے کیلئے اقدامات کریں اور خریداری بھی فوری طور پر شروع کر دیں۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، بہتر زرعی پالیسی سے ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے۔ عمیر احمد نیازی نے کہا کہ گندم کی درآمد کی وجہ سے مارکیٹ کا توازن متاثر ہوا ہے، حکومت نے جو سپورٹ پرائس مقرر کی ہے وہ منصفانہ نہیں ہے‘ میر غلام علی تالپور نے کہا کہ ان کے پورے ضلع سے 60 ہزار من گندم کی خریداری ہوئی ہے جبکہ ضلع میں 10 سے 12 لاکھ من گندم پیدا ہوتی ہے، اس مرتبہ گندم کی فصل سے کسانوں کے چہرے مرجھا گئے ہیں، خالد مگسی نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے جن علاقوں سے گیس نکلتی ہے ان پر قریبی علاقوں کے لوگوں کا پہلے حق ہوتا ہے۔ وقاص شیخ نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کا کسان مشکل میں ہے۔ رضا حیات ہراج نے کہا کہ یہ معاملہ پورے ملک کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ پرکیورمنٹ کے وقت گندم کی درآمد کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اگر کسانوں سے گندم نہیں خریدی گئی تو یہ ضائع ہو جائے گی۔ مخدوم جمیل الزمان نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کے حل کیلئے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ دیگر ممالک میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے کہیں زیادہ ہے، ہمیں گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، رکن قومی اسمبلی عبداللطیف نے کہا کہ گندم کی خریداری میں کمیشن خوری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ وہاڑی میں سب سے زیادہ گندم ہوتی ہے، وہاں پر بھی مسائل موجود ہیں۔ شہریار مہر نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کا اہم شعبہ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے عمر ایوب کے نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بشری بی بی کی طبی رپورٹس اسلام آباد کے اچھی ساکھ کے حامل شفا انٹرنیشنل ہسپتال سے آئی ہیں اور ان رپورٹس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔ بشری بی بی کے حوالے سے رپورٹس اسلام آباد کے اچھی ساکھ کے حامل شفا ہسپتال سے آئی ہے چونکہ رپورٹس درست آگئی ہیں اس لئے ایوان میں احتجاج کی گنجائش نہیں ہے۔ اپوزیشن نے اگر اپنی مرضی کی رپورٹس لینی ہیں تو شوکت خانم ہسپتال چلے جائیں۔ قومی اسمبلی میں ٹیکس کے بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا بل ٹیکس لا ترمیمی بل 2024 پیش کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے ایوان میں بل پیش کیا۔
قومی اسمبلی: ٹیکس لا ترمیمی بل پیش، گندم خریداری کی سپورٹ پرائس منصفانہ نہیں: ارکان
Apr 25, 2024