سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اب ہمیں اس ذلت پیہم کو بھگتنے کی عادت اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ اب ہمارے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ہمارے قومی نتھنے اب اس تعفن کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ وہ اب کسی تازہ ہوا میں سانس لے ہی نہیں سکتے۔ کرپشن اب ہماری ضرورت نہیں بلکہ عادت بن چکی ہے، پوری کائنات کے برعکس ہمارے یہاں جھوٹ اور دھوکہ دہی ضرورتاً نہیں بلکہ عادتاً رائج ہے۔
اصولی طور پر تو یہی چاہئے تھا کہ ہم اس بے ہودہ سے پندونصائح والے سلسلے کو ختم کرکے واپس ہنسی مذاق کی طرف چلے جاتے اور اس سلسلہ ذلالت کو جاری رہنے دیتے مگر کیا کریں کہ اپنے گردونواح میں پھیلی کرپشن کی یہ غلاظت دیکھ کر تو ہم مزاح نگاری بھی بھول چکے ہیں۔ اب ہم چاہیں بھی تو ہمیں کوئی مخولیہ بات باآسانی نہیں سوجھتی، ہمیں بے پناہ تردد کرنا پڑتا ہے اور تردد کرکے لکھا گیا کالم جو اب مضمون بن جاتا ہے کالم نہیں رہتا۔ بہرحال، ڈھٹائی چونکہ ہم میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اس لئے ہمت ہم نے بھی نہیں ہاری، ہم نے بھی سوچ لیا ہے کہ خواہ کسی پر اثر ہو نہ ہو، ہم نے کرپشن کا راگ الاپتے ہی رہنا ہے۔
اس ملک کو ٹھیک کرنے کی فکر ویسے تو یہاں کے تقریباً 16 کروڑ عوام کو بیک وقت ہی لاحق ہے اور ہر کوئی اس ملک کو حسب توفیق ’’تُھک‘‘ بھی لگاتا چلا جا رہا ہے مگر چند ایک سر پھرے آج بھی بہرحال موجود ہیں کہ جن کے دم قدم سے امیدکی ایک موم بتی آج بھی روشن ہے، پچھلے کئی ماہ سے روزانہ بیسیوں بار لگاتار سوچ سوچ کر بھی ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرپشن میں کمی نہیں بلکہ خاتمہ کئے بغیر آپ پاکستان کو تباہ وبرباد ہونے سے بچا نہیں سکتے، اور کرپشن کا خاتمہ احتساب کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور حکومتی اداروں کی کج روی نے اب تک ثابت کر دیا ہے کہ یہ تمام نصابی باتیں عظیم مخول ہیں کہ سب سے بڑا احتساب الیکشن ہوا کرتے ہیں، اور یہ کہ سب سے بڑا انتقام جمہوریت ہوتا ہے، یہ سب کچھ صریحاً بکواس ہے کیونکہ الیکشن والا احتساب زیادہ سے زیادہ ان بھیڑیوں کو پانچ سال کیلئے نظروں سے اوجھل کرتا ہے مگر پھر ٹھیک چند سالوں بعد یہی بدبودار کردار اور بدنما چہرے بار دیگر آپ کے اعصاب پر آن سوار ہوتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ ایبڈو اور پروڈا جیسے جمہوریت کش قوانین کی مخالفت کی ہے کہ جنہیں استعمال کرکے ایوب اور یحییٰ جیسے ملٹری ڈکٹیٹروں نے سیاسی لوگوں کا جینا حرام کئے رکھا۔ منتخب نمائندوں کو جب کرپشن کے نام پر نااہل قرار دیا گیا تو بڑے بڑے گندے لوگ نکال باہر کئے گئے، مگر یہ شاید اتنا ہی ضروری تھا جتنا کہ آج نظر آتا ہے، اس وقت بھی گیہوں کے ساتھ گھن پیسا تھا اور پاکستانی سیاست حسین شہید سہروردی جیسے بے مثل سیاستدانوں سے بھی محروم ہو گئی تھی مگر ایبڈو کی سب سے بڑی قباحت ہی یہی تھی کہ ایوب خان نے کوئی فالو اپ پلان تیار نہیں کیا تھا اور محض اپنی ذات کے گرد گھومنے پھرنے والا ایک واہیات سا سیاسی نظام دے کر ملک کو سینکڑوں سال پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔
امید تھی کہ عدلیہ اور سول سوسائٹی ہی کوئی کردار ادا کرکے احتساب کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے کہ جو مشرف کی نااہلی اور بدنیتی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مگر لگتا یہ ہے کہ سفاک اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کے پر بھی حسب ضرورت کاٹ ڈالے ہیں اور وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کردار ادا نہیں کر پا رہی جو اس سے متوقع تھا۔ سول سوسائٹی بھی اس لطیفہ نگری کے اسرارورموز کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے کنارہ کش ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو کسی نے اس بات پر شور مچانے کی زحمت گوارا کی کہ پی پی ایل کی تقریباً چھ ارب روپے مالیت کی عمارت واقع لاہور کو کس ڈھٹائی کے ساتھ بعض ’’دوستوں‘‘ کو محض دو کروڑ روپے میں 33 سال کی لیز پر دے دیا گیا۔ آخر کوئی تو اس بدنصیب ملک میں ایسا ہونا چاہئے کہ جو ان تمام متعلقہ افسران سے پوچھ سکے کہ بھئی خدا کے بندو، تم نے آخر یہ ظلم کس برتے پر کر ڈالا۔ کیا تم نے خدا کو جان نہیں دینی۔
اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن اس وقت تین آدمیوں کی کرپشن کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ صرف گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران اس کم نصیب کو مبلغ ستر کروڑ روپے کا ٹیکہ بذریعہ کرپشن لگایا جا چکا ہے اور اس بار تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن خسارے کا بجٹ پیش کرنے جا رہا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ارباب بست و کشاد کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
آخری گزارش ایک بار پھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ہی کی جا سکتی ہے کہ قبلہ اگر جونیجو مرحوم اپنے تین وزیر کرپشن کے سبب نکال سکتے تھے تو آپ کو ایسی کیا مجبوری لاحق ہے، آپ بھی بسم اللہ کیجئے۔ کم از کم پچاس وزرائے کرام اس مظلوم قوم کو اپنے بوجھ سے نجات دلوا سکتے ہیں۔ خدارا، ان نام نہاد پبلک سرونٹس سے بھی بازپرس ضرور کریں کہ جو مختلف محکموں میں بیٹھے صبح و شام ’’انہی‘‘کے گھر میں ڈانگ پھیرتے چلے جا رہے ہیں۔
یاد رکھئے‘ اگر آپ نے یہ کام شروع نہ کیا تو پھر کوئی اور کرے گا اور وہ صورتحال آپ کیلئے قطعاً قابل قبول نہ ہو گی۔ چلیئے شاباش، اٹھیئے، پہلا قدم اٹھائیے۔ اس ماہ کریم کو ایک درخشاں مثال بنا کر اپنا نام تاریخ میں محفوظ کروائیے۔ چلئے شاباش اٹھیئے اور اس بار سچ مچ کچھ کرکے دکھائیے!